0

کینیڈا اور چین سمیت عالمی ممالک کا امریکی ٹیرف کے خلاف ردعمل، جوابی اقدامات کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کئی ممالک نے ان ٹیرف کو غیر ضروری اور عالمی معیشت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ بعض نے جوابی اقدامات کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے امریکی ٹیرف کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے جوابی اقدامات کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیرف کینیڈا کی معیشت اور کارکنوں کے لیے براہ راست حملہ ہیں، اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب، چین کی وزارت تجارت نے امریکی ٹیرف کو عالمی اقتصادی ترقی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے فوری منسوخی کا مطالبہ کیا۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ٹیرف نہ صرف امریکی مفادات کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ عالمی سپلائی چین کو بھی متاثر کریں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ امریکا کو اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کرنا چاہیے۔

یورپی ممالک نے بھی اس معاملے پر اپنی آواز بلند کی۔ اطالوی وزیراعظم نے کہا کہ یورپی یونین پر امریکی ٹیرف “غلط” ہیں، جبکہ آئرلینڈ کے وزیراعظم نے تجویز دی کہ یورپی یونین کو ان ٹیرف کا مناسب جواب دینا چاہیے۔ آسٹریلیا نے بھی امریکی جوابی ٹیرف کو غیر ضروری قرار دیا۔ برطانیہ کے وزیر تجارت نے کہا کہ اگرچہ امریکی ٹیرف ایک چیلنج ہیں، لیکن وہ پھر بھی امریکا کے ساتھ اقتصادی معاہدے کے لیے پرعزم ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے غریب ممالک پر بھی بھاری ٹیرف عائد کیے ہیں، جن میں پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف شامل ہے، جس سے ترقی پذیر معیشتوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ادھر برازیل کی پارلیمنٹ نے ان ٹیرف سے نمٹنے کے لیے ایک قانون منظور کر لیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ لاطینی امریکا کے ممالک بھی اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتے۔

امریکی وزیر خزانہ نے عالمی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیرف کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے سے گریز کیا جائے، کیونکہ اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہر ملک کو میرا مشورہ ہے کہ وہ جوابی کارروائی نہ کرے، ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔” تاہم، کئی ممالک نے اس تنبیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جوابی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

یہ صورتحال عالمی تجارت کے لیے ایک نئے تنازع کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے اثرات نہ صرف معیشتوں بلکہ صارفین کی زندگیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں