افغانستان کی طالبان حکومت کی وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی گرفتاری کے لیے اعلان کردہ ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم واپس لے لی ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں امریکی وفد کے کابل دورے کے بعد دونوں فریقین کے تعلقات میں کچھ بہتری کے اشارے ملے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق، طالبان کی جانب سے یہ دعویٰ اس وقت منظر عام پر آیا جب گزشتہ ہفتے امریکی وفد نے کابل میں طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ اس وفد میں امریکی خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور سابق سفارت کار زلمے خلیل زاد شامل تھے۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں طالبان نے ایک امریکی شہری جارج گلیزمن کو رہا کیا تھا، جسے مبینہ طور پر قید میں رکھا گیا تھا۔ اس پیش رفت کے بعد سفارتی حلقوں میں تعلقات میں نرمی کی توقعات بڑھ گئی تھیں۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ “امریکا نے سراج الدین حقانی کے لیے معلومات کی فراہمی پر رکھی گئی ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔” تاہم، امریکی محکمہ خارجہ نے اس دعوے پر اب تک کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ دوسری طرف، امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (FBI) کی ویب سائٹ پر سراج الدین حقانی کے بارے میں معلومات اور انعامی رقم کا اعلان اب بھی موجود ہے، جو طالبان کے دعوے سے متضاد صورتحال پیش کرتا ہے۔
افغان میڈیا نے اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے رپورٹ کیا کہ سراج الدین حقانی کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے دیگر رہنماؤں، عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی پر بھی انعامی رقوم ختم کی گئی ہیں۔ ان دونوں کے بارے میں معلومات دینے پر 50 لاکھ ڈالر فی کس انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ حقانی نیٹ ورک، جو طالبان کا ایک اہم حصہ ہے، ماضی میں افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف کارروائیوں سے منسلک رہا ہے۔
سراج الدین حقانی، جو حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور طالبان کے نائب رہنما ہیں، 2015 سے طالبان کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے انہیں اپنی ایک فہرست میں شامل کیا ہوا ہے، اور امریکی محکمہ خارجہ نے ان کے بارے میں معلومات کے لیے پہلے 50 لاکھ ڈالر اور بعد میں ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کا دعویٰ سچ ثابت ہوتا ہے تو یہ امریکا اور طالبان کے تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ حالیہ مہینوں میں طالبان نے مغربی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے، اور امریکی شہری کی رہائی کو اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر انعامی رقم کا اشتہار برقرار رہنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یا تو امریکی اداروں نے اس فیصلے کو ابھی اپنایا نہیں، یا طالبان کا دعویٰ یکطرفہ ہے۔
ایک سیاسی مبصر نے کہا کہ “امریکا اور طالبان کے تعلقات ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اگر انعامی رقم ختم کی گئی تو یہ سفارتی سطح پر بڑی بات ہوگی، لیکن امریکی محکمہ خارجہ کی خاموشی اسے مشکوک بناتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ سراج الدین حقانی جیسے رہنما کے حوالے سے کوئی فیصلہ امریکی عوام اور قانون سازوں کے لیے اہم ہوگا۔
افغان عوام اور عالمی برادری اس خبر پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا یہ دعویٰ درست ہے یا طالبان کی جانب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش۔ اس کی تصدیق کے لیے امریکی حکام کے سرکاری بیان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔