اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان سے ہفتے میں دو دن جیل میں ملاقات کی اجازت بحال کر دی ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک درخواست کی سماعت کے دوران کیا، جس میں عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی کے خلاف اپیل کی گئی تھی۔ تاہم، عدالت نے ایک اہم شرط عائد کی ہے کہ ملاقات کے بعد میڈیا سے کوئی بات چیت یا میڈیا ٹاک نہیں کی جائے گی۔
ایک لارجر بینچ، جس کی سربراہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے ملاقاتیں منگل اور جمعرات کو ہوں گی۔ عدالت نے واضح کیا کہ ملاقات کے لیے عمران خان کے کوآرڈینیٹر کی جانب سے دیے گئے ناموں پر مشتمل فہرست کے مطابق ہی افراد کو ملاقات کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ، عدالت نے سختی سے ہدایت کی کہ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کی اجازت نہیں ہوگی، اور اس کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا، “جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا ٹاک کی کیا ضرورت ہے؟” اس شرط کو عائد کرنے کا مقصد جیل کے اندر اور باہر نظم و ضبط کو برقرار رکھنا اور سیاسی بیانات سے پیدا ہونے والی ممکنہ کشیدگی کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔
عمران خان اگست 2023 سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جہاں وہ متعدد مقدمات میں سزا یافتہ ہیں۔ ان مقدمات میں توشہ خانہ کیس، سائفر کیس، اور غیر قانونی نکاح کا کیس شامل ہیں۔ اگرچہ ان کی کچھ سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل یا ختم کر دیا ہے، جیسے کہ سائفر کیس میں 10 سال کی سزا جو جون 2024 میں ختم کی گئی تھی، لیکن وہ دیگر مقدمات کی وجہ سے ابھی تک جیل میں ہیں۔
اس سے قبل، عمران خان کے وکلا، خاندان، اور پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں پر کئی بار پابندی عائد کی گئی تھی، جس کی وجہ سیکیورٹی خدشات بتائی گئی تھی۔ مارچ 2024 میں اڈیالہ جیل کے قریب دہشت گردی کے منصوبوں کی اطلاعات کے بعد ملاقاتوں پر دو ہفتوں کے لیے پابندی لگائی گئی تھی، جسے پی ٹی آئی نے سیاسی دباؤ کا حربہ قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے وکلا نے اس پابندی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جس کے نتیجے میں اب ملاقاتوں کی اجازت بحال کر دی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن میڈیا ٹاک پر پابندی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ “یہ فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن میڈیا سے بات چیت پر پابندی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان ایک سیاسی رہنما ہیں، اور انہیں اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کا حق ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی اس شرط کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔
عدالت کا یہ فیصلہ ایک طرف تو عمران خان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی طرف ایک قدم ہے، کیونکہ جیل میں قیدیوں کو اپنے وکلا اور خاندان سے ملاقات کا حق حاصل ہے۔ تاہم، میڈیا ٹاک پر پابندی سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہے؟ عمران خان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ وہ جیل میں ہونے کے باوجود سیاسی طور پر ایک مضبوط قوت ہیں۔ فروری 2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، جو عمران خان کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔
دوسری جانب، حکومت اور جیل انتظامیہ کا موقف ہے کہ میڈیا ٹاک سے سیاسی کشیدگی بڑھ سکتی ہے، جو موجودہ معاشی اور سیاسی بحران کے تناظر میں ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ پابندی آزادی اظہار پر قدغن کے طور پر بھی دیکھی جا رہی ہے، جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
مزید برآں، یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات ابھی تک زیر سماعت ہیں۔ جنوری 2025 میں انہیں زمین کے ایک کرپشن کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کے خلاف ان کی پارٹی نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔ اس تناظر میں، ملاقاتوں کی بحالی ان کے قانونی دفاع کے لیے اہم ہے، لیکن میڈیا ٹاک پر پابندی ان کے سیاسی پیغام کو محدود کر سکتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ عمران خان کے حامیوں کے لیے ایک جزوی ریلیف ہے، لیکن میڈیا ٹاک پر پابندی سے ان کی سیاسی آواز کو دبانے کی کوششوں کے الزامات مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں ایک اہم موڑ ہے، جہاں عدالتی فیصلے، سیاسی دباؤ، اور عوامی جذبات ایک پیچیدہ کشمکش کا حصہ بن چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس فیصلے کے اثرات اور اس کے خلاف ممکنہ قانونی چیلنجز پر نظر رکھنا ضروری ہوگا۔