0

بی این پی کے دھرنے کے قریب خودکش دھماکا، اختر مینگل سمیت تمام شرکا محفوظ

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں لک پاس کے قریب جاری دھرنے کے مقام پر ایک خودکش حملہ آور نے دھماکا کیا، تاہم اس حملے میں سردار اختر مینگل سمیت بی این پی کی تمام قیادت اور شرکا محفوظ رہے۔ ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دھماکا دھرنا گاہ سے کچھ فاصلے پر ہوا، اور اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ترجمان کے مطابق، خودکش حملہ آور موٹر سائیکل پر اپنے ساتھی کے ساتھ آیا اور بی این پی کے دھرنے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ سردار اختر مینگل کے ذاتی محافظوں نے مشکوک شخص کو روکنے کی کوشش کی، جس پر حملہ آور نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ فرار میں ناکامی کے بعد اس نے اپنی بارودی جیکٹ پھاڑ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔ دھماکے کے دوران اس کے پیچھے بھاگنے والے دو افراد زخمی ہوئے، لیکن دھرنا گاہ میں موجود بی این پی کی قیادت، جن میں نواب محمد خان شاہوانی سمیت دیگر رہنما شامل تھے، محفوظ رہے۔

حکومت بلوچستان نے واقعے کی مکمل چھان بین شروع کر دی ہے، اور سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ریسکیو ٹیموں کو جائے وقوع پر روانہ کر دیا ہے۔ شاہد رند نے بتایا کہ گزشتہ رات سے بی این پی کی قیادت کے ساتھ رابطے جاری تھے، اور ایک حکومتی وفد کی سردار اختر مینگل سے ملاقات طے تھی، لیکن اس سے قبل یہ افسوسناک واقعہ پیش آ گیا۔

ترجمان نے کہا کہ صوبائی حکومت ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے اور بی این پی کی قیادت نے بھی بات چیت کے لیے مثبت جواب دیا تھا۔ انہوں نے سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں، کیونکہ دشمن اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شاہد رند نے زور دیا کہ بات چیت سے صورتحال بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے، اور امید ہے کہ اس سے کوئی بہتر راستہ نکلے گا۔

دھماکے کے بعد لک پاس دھرنے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ دھرنا جاری رہے گا، اور اگر راستے کھلے ملے تو دھرنا کوئٹہ منتقل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، “ہم ایسے حالات سے گزر چکے ہیں، حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔” بی این پی کا دھرنا بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنماؤں کی گرفتاریوں، کارکنان کی غیر قانونی حراست، اور راستوں کی بندش کے خلاف جاری ہے۔ سردار اختر مینگل نے 25 مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، جو 28 مارچ کو لک پاس پہنچا تھا۔

بی این پی کا یہ دھرنا بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے ساتھ یکجہتی کے طور پر شروع کیا گیا تھا، جو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ 24 مارچ کو بی وائی سی کی رہنما سمی دین بلوچ سمیت متعدد افراد کو کراچی پولیس نے حراست میں لیا تھا، جبکہ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر بی وائی سی کے دھرنے پر پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا تھا۔ بی وائی سی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کریک ڈاؤن میں 3 افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوئے، جبکہ پولیس کے مطابق ان کے 10 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں بی این پی نے بلوچستان کے ساحلی شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی، اور سردار اختر مینگل نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کی کال دی تھی۔

یہ خودکش دھماکا بلوچستان کے بگڑتے ہوئے حالات کی ایک اور علامت ہے، جہاں سیاسی کارکنوں، قوم پرست جماعتوں، اور عام شہریوں کے درمیان عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ بی این پی اور بی وائی سی کا احتجاج جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنز، اور بلوچوں کے حقوق کی مبینہ پامالی کے خلاف ہے، جو کہ بلوچستان میں ایک طویل عرصے سے جاری تنازع کا حصہ ہیں۔ سردار اختر مینگل نے ماضی میں بھی بلوچستان کے مسائل کو قومی اسمبلی سمیت مختلف فورمز پر اٹھایا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی آواز کو مسلسل نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ 2024 میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے تھے۔

حکومت بلوچستان کی جانب سے ڈائیلاگ کی پیشکش ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت کس حد تک بی این پی کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ماضی میں بھی ایسی پیشکشیں ہوتی رہی ہیں، لیکن عملی اقدامات کی کمی کی وجہ سے بلوچ قوم پرست جماعتوں کا اعتماد حکومتی اداروں سے اٹھتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، اختر مینگل نے 2022 میں اپنے 6 نکات پیش کیے تھے، جن میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ، فوجی آپریشنز کی بندش، اور بلوچوں کے حقوق کی بحالی شامل تھی، لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

دھماکے کا وقت بھی تشویشناک ہے، کیونکہ یہ اس وقت ہوا جب حکومتی وفد بی این پی سے ملاقات کے لیے جا رہا تھا۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ حملہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تھی؟ بلوچستان میں ماضی میں بھی سیاسی رہنماؤں اور احتجاجی مظاہروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جیسا کہ 2013 میں کوئٹہ میں آئی جی پولیس کے گھر کے قریب خودکش دھماکے میں 7 افراد ہلاک ہوئے تھے، جب بی این پی کا ایک احتجاجی مظاہرہ قریب ہی جاری تھا۔

حکومت کی جانب سے “دشمن” کا ذکر کرنا ایک عمومی بیانیہ ہے، لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ حملہ کس نے کیا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔ بلوچستان میں عسکریت پسند گروہ جیسے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ماضی میں ایسی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں، لیکن بی این پی جیسے سیاسی دھارے کی جماعتوں کو نشانہ بنانا ان کے ایجنڈے سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ بی این پی پارلیمانی سیاست کے ذریعے اپنے مطالبات اٹھاتی ہے۔ اس سے یہ امکان بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ حملہ کسی تیسرے فریق کی کارروائی ہو، جو بلوچستان میں کشیدگی کو بڑھانا چاہتا ہے۔

لک پاس کے قریب خودکش دھماکے سے بلوچستان کے نازک حالات ایک بار پھر عیاں ہو گئے ہیں۔ اگرچہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن یہ واقعہ سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ سردار اختر مینگل کا دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ ان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے، لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ وہ محض بیانات سے آگے بڑھ کر بی این پی کے جائز مطالبات پر عملدرآمد کرے، اور اس دھماکے کی شفاف تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرے۔ اگر ڈائیلاگ کا عمل کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ بلوچستان میں سیاسی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے دونوں فریقوں کو سنجیدگی اور خلوص کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں