وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاور ڈویژن کے امور پر ایک اہم جائزہ اجلاس کی صدارت کی، جس میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات، بجلی کی قیمتوں میں کمی، اور قابل تجدید توانائی کے فروغ پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے، کیونکہ یہ نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ کم لاگت بجلی کی پیداوار کے ذریعے عوام کو ریلیف بھی فراہم کر سکتی ہے۔
وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ سولرآئزیشن پالیسی کے حوالے سے عوام میں پائے جانے والے تمام ابہام کو حقائق اور اعداد و شمار کی بنیاد پر دور کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ شمسی توانائی کے حوالے سے حکومت کی پالیسی اور ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی کے منصوبوں سے نہ صرف بجلی کی پیداواری لاگت کم ہوگی بلکہ یہ مہنگے ایندھن کی درآمدات پر انحصار کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
وزیراعظم نے جینریشن کمپنیوں کے خاتمے (liquidation) کے حوالے سے تمام تر قانونی اور دیگر امور کو جلد از جلد طے کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے کہا کہ فرسودہ اور کم پیداوار والے بجلی گھروں کو بند کرکے جدید اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر توجہ دی جائے گی، جو نہ صرف لاگت کو کم کریں گے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی لائیں گے۔
وزیراعظم نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عمل تیز تر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نجکاری سے نہ صرف بجلی کے شعبے میں کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ مالیاتی بوجھ کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری کے عمل کو شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے تحت پیکج تیار کیا جا رہا ہے، جس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کی بدولت عوام کو بجلی کی قیمتوں میں مزید ریلیف فراہم کیا جائے گا، جو موجودہ معاشی حالات میں ایک بڑی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے توانائی کے شعبے کے حوالے سے جامع حکمت عملی کے لیے پاور ڈویژن، آبی وسائل ڈویژن، اور پٹرولیم ڈویژن کے درمیان ہم آہنگی کو مزید بہتر کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے کہا کہ ان شعبوں کے درمیان بہتر رابطہ کاری سے نہ صرف توانائی کے وسائل کا بہتر استعمال ممکن ہوگا بلکہ منصوبوں پر عمل درآمد بھی تیز ہوگا۔
اگرچہ وزیراعظم کی جانب سے قابل تجدید توانائی کے فروغ اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے وعدے عوام کے لیے امید افزا ہیں، لیکن ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عمل کئی سالوں سے زیر بحث ہے، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے میں تاخیر اور شفافیت کے مسائل سامنے آتے رہے ہیں۔ نجکاری کے بعد اگر ان کمپنیوں کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو اس کا بوجھ بالآخر صارفین پر ہی پڑ سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں دیگر نجکاری کے عمل کے بعد دیکھا گیا۔
مزید برآں، شمسی توانائی کے فروغ کے لیے سولرآئزیشن پالیسی پر ابہام دور کرنے کی بات تو کی گئی ہے، لیکن عملی اقدامات کے بارے میں اب تک واضح روڈ میپ سامنے نہیں آیا۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں شمسی توانائی کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، اسے بڑے پیمانے پر اپنانے کے لیے نہ صرف پالیسی بلکہ مالی مراعات، تکنیکی معاونت، اور عوامی آگاہی کی بھی ضرورت ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان خوش آئند ہے، لیکن اس کے لیے جو پیکج تیار کیا جا رہا ہے، اس کی تفصیلات کا انتظار کرنا ہوگا۔ اگر یہ کمی عارضی ہوئی یا اس کا بوجھ دوسرے شعبوں پر منتقل کیا گیا، جیسے کہ ٹیکسز یا دیگر سروسز کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں، تو اس کا فائدہ محدود ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات، نجکاری، اور قابل تجدید توانائی کے فروغ کے لیے کی جانے والی ہدایات مثبت سمت کی جانب ایک قدم ہیں۔ تاہم، ان ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شفافیت، موثر عمل درآمد، اور عوام کی شمولیت بہت ضروری ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان جلد ہونے سے عوام کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یہ اقدامات کس حد تک پائیدار اور جامع ہیں۔