پاکستان میں چینی کی قیمتوں کے حوالے سے حکومتی دعووں اور زمینی حقائق میں واضح تضاد سامنے آیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں چینی 163 روپے فی کلو کی شرح سے دستیاب ہے اور چینی کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی وجہ سے ہے، لیکن حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ نہ ہو۔ تاہم، مارکیٹ کے حالات اس دعوے کے برعکس ہیں، کیونکہ ملک بھر میں چینی کی قیمتیں 163 روپے فی کلو سے کہیں زیادہ ہیں۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق، کوئٹہ میں چینی کی قیمت 175 سے 180 روپے فی کلو تک ہے، جبکہ کراچی میں یہ 170 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ یہ قیمتیں وفاقی وزیر کے دعوے کردہ 163 روپے فی کلو سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات یا تو ناکافی ہیں یا ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اقدامات کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق، وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو چینی کی قیمتوں کی نگرانی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، رمضان المبارک کے دوران چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کا اعلان بھی کیا گیا تھا، جیسے کہ ہر ضلع میں چینی کے سٹالز لگانا، جہاں چینی 130 روپے فی کلو کی شرح سے فروخت کی جانی تھی۔ تاہم، رمضان کے بعد بھی چینی کی قیمتیں کم نہ ہو سکیں، بلکہ ان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
حکومتی دعووں کے مطابق، ملک میں چینی کی وافر مقدار موجود ہے۔ رانا تنویر حسین نے بتایا کہ پچھلے سال چینی کا اسٹاک 76 لاکھ ٹن تھا، جبکہ ملکی ضروریات 63 لاکھ ٹن تک محدود تھیں۔ فاضل اسٹاک کا کچھ حصہ برآمد کیا گیا، لیکن بفر اسٹاک کی موجودگی سے سپلائی میں کمی کے امکانات کو مسترد کیا گیا۔ اس کے باوجود، مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی دعووں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق، چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ کچھ شہروں میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ کریک ڈاؤن کے بعد معمولی کمی بھی دیکھی گئی، جیسے کہ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 168 روپے سے کم ہو کر 159 روپے فی کلو تک آئی، لیکن پرچون مارکیٹ میں یہ اب بھی 170 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ کوئٹہ میں بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں، جہاں چینی 175 سے 180 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے طبقات کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ چینی روزمرہ کی ضرورت کی ایک اہم چیز ہے، اور اس کی قیمتوں میں اضافہ دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
حکومتی دعووں اور مارکیٹ کے حالات کے درمیان واضح تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات یا تو ناکافی ہیں یا ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اگرچہ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ کیا ہے، لیکن مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں اس دعوے کی نفی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کوئٹہ میں 2023 میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد چینی کی قیمت 220 روپے سے کم ہو کر 160 روپے فی کلو تک آئی تھی، لیکن اب یہ دوبارہ 175 سے 180 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں اور طویل مدتی حل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مزید برآں، چینی کی برآمدات کے فیصلے بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ کچھ ماہرین اور عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ چینی کی برآمدات کی اجازت دینے سے ملکی مارکیٹ میں اس کی کمی ہوئی، جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ X پر موجود پوسٹس کے مطابق، جب چینی کی قیمت 130 روپے فی کلو تھی، تب برآمدات کی اجازت دی گئی، جس کے بعد قیمت بڑھ کر 175 روپے تک پہنچ گئی۔ اب حکومت نے قیمت 164 روپے فی کلو مقرر کی ہے، لیکن مارکیٹ میں یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حکومتی پالیسیوں نے چینی مافیا کو فائدہ پہنچایا، جبکہ عوام کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، اور اس سال چینی کی کل پیداوار 59 لاکھ ٹن بتائی گئی ہے، جو ملکی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اس کے باوجود، قیمتوں میں اضافہ حکومتی ناقص منصوبہ بندی یا عمل درآمد کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں بھی چینی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، لیکن پاکستان میں قیمتوں کا اضافہ عالمی رجحانات سے زیادہ تیزی سے ہوا ہے، جو مقامی عوامل جیسے کہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
حکومتی دعووں کے باوجود، چینی کی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے جو عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر کے دعوے کہ چینی 163 روپے فی کلو میں دستیاب ہے، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے، کیونکہ کوئٹہ اور کراچی جیسے شہروں میں چینی 170 سے 180 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ حکومت کو چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نہ صرف سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف موثر کارروائی کے بغیر، چینی کی قیمتیں کم ہونے کا امکان کم ہے، اور عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور رہیں گے۔