میانمار اور تھائی لینڈ میں 28 مارچ 2025 کو آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 1,000 سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ سیکڑوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ زلزلہ میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے سے 17.2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساگین کے شمال مغرب میں 10 کلومیٹر کی گہرائی پر آیا، جس کے بعد 6.4 شدت کا ایک بڑا آفٹر شاک بھی ریکارڈ کیا گیا۔ زلزلے کے جھٹکوں نے نہ صرف میانمار بلکہ ہمسایہ ممالک تھائی لینڈ، چین، بنگلہ دیش، اور بھارت تک کو متاثر کیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، میانمار میں اب تک 1,002 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 2,376 افراد زخمی ہیں اور 30 افراد لاپتہ ہیں۔ میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ امدادی ٹیمیں ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے (USGS) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتیں 10,000 سے بھی تجاوز کر سکتی ہیں، کیونکہ زلزلے کا مرکز گنجان آباد علاقوں کے قریب تھا اور عمارات کی کمزور ساخت کے باعث نقصانات شدید ہیں۔
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں، جو زلزلے کے مرکز سے تقریباً 900 کلومیٹر دور ہے، ایک زیر تعمیر 33 منزلہ عمارت گرنے سے کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 100 سے زائد مزدور اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ بنکاک حکام کے مطابق، شہر بھر میں 2,000 سے زائد عمارتوں میں دراڑیں پڑنے کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔ تھائی لینڈ کی ڈپٹی وزیراعظم انوتین چارنویراکول نے بتایا کہ امدادی ٹیمیں رات بھر کام کر رہی ہیں، اور مزید لاشوں کے ملنے کا خدشہ ہے۔
زلزلے کے جھٹکوں نے میانمار کے شہروں منڈالے، نیپی ٹا، اور ساگین میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ منڈالے میں تاریخی ما سو یان خانقاہ اور شوی فو شنگ مسجد سمیت متعدد عمارتیں منہدم ہو گئیں، جبکہ سابق شاہی محل کو بھی نقصان پہنچا۔ ساگین میں ایک 90 سال پرانا پل گر گیا، اور منڈالے سے یانگون تک جانے والی شاہراہ کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا۔ نیپی ٹا میں سرکاری عمارتوں اور مذہبی مقامات کو شدید نقصان پہنچا، جبکہ ایک ڈیم کے ٹوٹنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی۔
زلزلے کے جھٹکے بھارت کی ریاستوں میگھالیہ اور منی پور، بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا، اور چین کے صوبوں یونان اور سیچوان میں بھی محسوس کیے گئے۔ چین کے شہر رویلی، جو میانمار کی سرحد کے قریب ہے، میں عمارتوں کو نقصان پہنچا اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ کمبوڈیا، ویتنام، اور جنوبی چین میں بھی ہلکی لرزش کی اطلاعات ہیں۔ بنکاک میں بلند و بالا عمارتوں کے سوئمنگ پولز سے پانی باہر نکل آیا، اور کئی عمارتوں سے ملبہ گرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔
میانمار کی فوجی حکومت نے غیر معمولی طور پر بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے، جس کے جواب میں چین اور بھارت نے فوری طور پر امدادی ٹیمیں بھیجی ہیں۔ چین کی ایک سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم 29 مارچ کی صبح یانگون پہنچ گئی، جبکہ بھارت نے بھی طبی اور امدادی ٹیمیں روانہ کیں۔ نیوزی لینڈ نے بھی انٹرنیشنل ریڈ کراس کے ذریعے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ میانمار کی مدد کے لیے تیار ہے، اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے ڈیزاسٹر رسپانس ٹیم (DART) کو فعال کر دیا ہے۔
تاہم، امدادی کارروائیوں کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ میانمار، جو 2021 کے فوجی بغاوت کے بعد سے خانہ جنگی کا شکار ہے، پہلے ہی 35 لاکھ سے زائد بے گھر افراد اور غذائی قلت کے بحران سے دوچار ہے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں سڑکیں، پل، اور مواصلاتی نظام تباہ ہو گئے ہیں، جس سے امدادی ٹیموں کے لیے رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ منڈالے اور یانگون میں بجلی اور ٹیلی فون لائنوں کی مکمل بندش کی اطلاعات ہیں، جبکہ منڈالے ایئرپورٹ کے رن ویز کو نقصان پہنچنے سے پروازیں معطل ہیں۔
تھائی لینڈ میں، بنکاک کو ایمرجنسی زون قرار دے دیا گیا ہے۔ تھائی وزیراعظم پیٹونگتارن شیناواترا نے فوری اجلاس طلب کیا، اور شہر کے گورنر چاڈچارٹ سٹیپنٹ نے تمام اضلاع اور ہسپتالوں کو نقصانات کا جائزہ لینے کی ہدایت دی۔ بنکاک میں اسٹاک ایکسچینج کی تجارت معطل کر دی گئی، اور پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بند کر دیا گیا۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، یہ زلزلہ ساگین فالٹ پر “سٹرائیک سلپ فالٹنگ” کی وجہ سے آیا، جہاں انڈیا اور یوریشیا ٹیکٹونک پلیٹس ایک دوسرے کے ساتھ رگڑ کھاتی ہیں۔ برطانوی جیولوجیکل سروے کے ماہر برائن بیپٹی نے بتایا کہ 200 کلومیٹر طویل فالٹ لائن پر ایک منٹ سے زائد تک زمین 5 میٹر تک سرک گئی، جس سے شدید جھٹکوں نے گنجان آباد علاقوں کو متاثر کیا۔ میانمار کے زیادہ تر علاقوں میں عمارتیں لکڑی اور غیر مضبوط اینٹوں سے بنی ہیں، جو اس شدت کے زلزلے کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر بل میک گوائر نے کہا کہ اس علاقے میں اس سے قبل بھی بڑے زلزلے آ چکے ہیں، لیکن یہ زلزلہ ایک “سیسمک گیپ” پر آیا، جہاں کافی عرصے سے کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آفٹر شاکس کی وجہ سے پہلے سے کمزور عمارتیں مزید گر سکتی ہیں، جس سے امدادی کارروائیوں میں مزید مشکلات پیش آئیں گی۔
میانمار کی فوجی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی امداد کی اپیل ایک غیر معمولی قدم ہے، کیونکہ ماضی میں اس نے ایسی امداد قبول کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی تھی۔ تاہم، میانمار کی موجودہ صورتحال، جہاں خانہ جنگی، معاشی بدحالی، اور بنیادی ڈھانچے کی کمزوری پہلے ہی مسائل کا باعث ہیں، اس زلزلے کے اثرات کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فوجی حکومت امداد کی تقسیم میں سیاسی مداخلت کر سکتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں باغی گروہوں کا کنٹرول ہے، جیسے کہ ساگین، جو زلزلے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔
تھائی لینڈ میں، اگرچہ حکومتی ردعمل فوری رہا، لیکن بنکاک جیسے گنجان آباد شہر میں ہائی رائز عمارتوں کی حفاظت کے معیارات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ زیر تعمیر عمارت کا گرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تعمیراتی معیارات اور زلزلے سے تحفظ کے ضوابط پر عملدرآمد میں کمی ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ، میانمار اور تھائی لینڈ دونوں ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سامنا ہے، جیسا کہ گزشتہ سال میانمار میں طوفان یاگی اور سیلاب سے 200 سے زائد ہلاکتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح کے قدرتی آفات کے بڑھنے سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ممالک طویل مدتی منصوبہ بندی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے تیار ہیں؟
میانمار اور تھائی لینڈ میں 7.7 شدت کا یہ زلزلہ گزشتہ ایک صدی میں میانمار کا سب سے بڑا زلزلہ ہے، جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد 1,000 سے تجاوز کر چکی ہے، اور امدادی کارروائیوں کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ میانمار کی خانہ جنگی اور کمزور بنیادی ڈھانچہ، جبکہ تھائی لینڈ میں ہائی رائز عمارتوں کی حفاظت کے مسائل، اس قدرتی آفت کے اثرات کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی فوری امداد کے باوجود، متاثرہ علاقوں میں رسائی، مواصلاتی نظام کی بندش، اور سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے بحالی کا عمل طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔