0

مولانا فضل الرحمٰن کا انٹرویو: پاکستان کو جنگ کے خطرے اور سیاسی تقسیم سے خبردار

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے موجودہ حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر فوجی پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی نہ لائی گئی تو ملک کو جنگ کے خطرے اور اندرونی انتشار کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی، دہشت گردی کے بڑھتے واقعات، اور سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد کو قومی سلامتی کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیا۔ مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور تمام فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ مل بیٹھ کر ایک مشترکہ راستہ تلاش کریں۔

افغانستان کے ساتھ جنگ کا خطرہ

مولانا فضل الرحمٰن نے انٹرویو کے دوران کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے افغانستان کے ساتھ لڑائی کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے، جسے وہ پاکستان کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ “ہماری فوج کی تربیت صرف جنگ کے لیے ہے، اور اگر یہ پالیسی جاری رہی تو نہ صرف باہر بلکہ ملک کے اندر بھی لڑائی ہو گی،” انہوں نے خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسی ان کے مکمل اختیار میں ہے، لیکن اس کے نتائج قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ “ایران ایک دن ہم پر حملہ کر سکتا ہے، اور ہم اگلے دن جوابی کارروائی کریں گے، لیکن تیسرے دن ہم دوبارہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔” مولانا نے اسے ایک غیر مستحکم صورتحال قرار دیا اور کہا کہ بھارت کے ساتھ لڑائی سے گریز کیا جا رہا ہے، لیکن مغربی سرحد پر تناؤ پاکستان کے وسائل اور توجہ کو ختم کر رہا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس معاملے پر مزید سوچ بچار کی گنجائش موجود ہے اور جنگ سے بچنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے۔

دہشت گردی اور علماء کو نشانہ بنانے کا نیا رجحان

مولانا نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شدید تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ “مساجد، مدارس، خانقاہوں اور عبادت گاہوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن اب ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ علمائے کرام کو خاص طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔” ان کا ماننا ہے کہ یہ حملے داعش جیسے گروہوں کی کارستانی ہیں، جو دیوبندی اور سلفی مکاتب فکر کے درمیان نظریاتی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے ذاتی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “میں خود کئی بار دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہوں، لیکن یہ حملے صرف مجھ تک محدود نہیں۔” انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں اور اساتذہ جیسے مولانا حسن جان، مولانا نور محمد، اور مولانا مفتی نظام الدین کی شہادتوں کا ذکر کیا، جنہیں دہشت گردی کے واقعات میں نشانہ بنایا گیا۔ مولانا نے ان قاتلوں کو “سفاک قاتل” قرار دیا اور کہا کہ ان کے خلاف سخت موقف اپنانا ضروری ہے۔

سیاسی مینڈیٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت

مولانا فضل الرحمٰن نے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ “میں پارٹی کا نمائندہ ہوں، عوام کا نہیں، کیونکہ الیکشن کا انتظام اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔” انہوں نے کہا کہ صوبوں میں بھی عوامی مینڈیٹ کی دیکھ بھال نہیں ہو رہی، اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں سیاسی عمل کمزور ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “45 سال سے یہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں ہے، اور اگر یہ مینڈیٹ اسی طرح بنتا رہا تو حالات بہتر نہیں ہوں گے۔”

انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ “فوجی جنرلز کہتے ہیں کہ انہوں نے سرحد پر باڑ لگائی اور بیک فٹ پر غیر ضروری چیزیں پھینکیں، لیکن اس کے باوجود دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی۔” مولانا نے اسے ایک خلا قرار دیا جس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہا، اور اسے پُر کرنے کے لیے سیاسی عمل کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

مشترکہ حکمت عملی کی اپیل

مولانا نے تمام سیاسی جماعتوں، اداروں اور ماہرین سے مطالبہ کیا کہ وہ مل بیٹھ کر ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کریں۔ “ہمیں ماہر معاشیات کو بتانا چاہیے کہ وہ ہمیں کیا مشورہ دیتے ہیں، سیاستدانوں اور اداروں کی رپورٹس کو سامنے رکھنا چاہیے، اور ایک ایجنڈا بنانا چاہیے،” انہوں نے کہا۔ ان کا ماننا ہے کہ جنگ کا خطرہ موجود ہے، لیکن اسے روکنے کے لیے ابھی وقت ہے اگر عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ تعاون کی پیشکش بھی کی اور کہا، “اگر پی ٹی آئی تحریک چلاتی ہے تو ہم اس کی قیادت کے لیے تیار ہیں، لیکن اسے مستقل حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔” تاہم، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری کشمکش کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ “جب تک اعتماد بحال نہیں ہوتا، کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔”

تاریخی تناظر اور مستقبل کے خدشات

مولانا نے پاکستان کی تاریخی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “سوویت یونین کے خلاف جہاد میں ہم نے اہم کردار ادا کیا، لیکن جب امریکہ آیا تو اسے جہاد نہیں کہا گیا۔” انہوں نے جنرل مشرف کے دور کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ “امریکہ کے ساتھ اتحاد نے عوام میں بے چینی پیدا کی، جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔”

انہوں نے افغانستان کے اندرونی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “افغان طالبان کہتے ہیں کہ جہاد ختم ہو گیا، لیکن ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔” مولانا نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں، اور پاکستان کی ریاستی رٹ کمزور ہو سکتی ہے۔

بلوچستان اور قومی سلامتی

بلوچستان کے حوالے سے مولانا نے کہا کہ “وہاں حالات سنگین ہو چکے ہیں، اور اگر چھ سات اضلاع نے علیحدگی کا اعلان کر دیا تو اقوام متحدہ کی مداخلت ہو سکتی ہے۔” انہوں نے اسے ایک سازش کا حصہ قرار دینے سے گریز کیا لیکن کہا کہ “ہمیں اپنے ملک کے لیے سوچنا ہے، اور سیاسی ذہانت سے اسے حل کرنا ہو گا۔” ان کا مشورہ تھا کہ جنگ کے بجائے مذاکرات اور سیاسی عمل کو مضبوط کیا جائے۔

انٹرویو کے آخر میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، “ہمارا دماغ تباہ ہو رہا ہے، لیکن اگر ہم متحد ہو کر لڑے تو اسے روک سکتے ہیں۔” انہوں نے حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ تمام فریقین کو بلائیں اور ایک عقلمند راستہ اختیار کریں۔ “جنگ کوئی حل نہیں، اور ہمیں اپنے وسائل امن کے لیے استعمال کرنے چاہئیں،” انہوں نے زور دیا۔

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں