مری: قائد جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ نے جے یو آئی پنجاب کے جنرل کونسل اجلاس سے ایک جامع اور پرجوش خطاب کیا، جس میں انہوں نے ملکی سیاسی صورتحال، معاشی چیلنجز، اور عالمی امور پر گہری بحث کی۔ اجلاس میں صوبہ پنجاب کے سینئر علماء، کارکنوں، اور جماعت کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی، اور مولانا نے موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ جماعت کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب اس میں اخلاص، نیک نیت، اور اللہ کی رضا مندی ہو۔ انہوں نے زور دیا کہ بغیر اللہ کی مدد اور نصرت کے کوئی بھی کوشش ناکام ہو جاتی ہے، اور اخلاص کے بغیر محنت میں نہ تو برکت ہوتی ہے اور نہ ہی صحیح سمت ملتی ہے۔
مولانا نے جے یو آئی کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ برصغیر کی سب سے قدیم دینی و سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے 1803 میں حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی جانب سے برصغیر کو دار الحرب قرار دینے اور جہاد کی کال کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انگریز نے اس کے جواب میں تعلیم کے نظام کو تقسیم کر کے دینی علوم کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ میں قائم کردہ مدرسے سے قرآن، حدیث، فقہ، اور فارسی زبان کو نکال دیا گیا، جس کے جواب میں اکابرین نے دینی مدرسوں کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے حضرت شیخ الہند اور مولانا محمود حسن کی تحریک خلافت اور جمعیت علماء ہند کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جماعت مسلکی حدود سے بالاتر ہو کر قائم کی گئی تھی۔
انہوں نے موجودہ دور میں دینی مدرسوں پر حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو انگریز اس میں کامیاب ہو سکے اور نہ آج کی اسٹیبلشمنٹ، اور آج بھی مدرسوں کی تعداد اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مغرب دینی شناخت، تہذیب، معیشت، اور تعلیم پر حملہ آور ہے، اور اسے روکنے کے لیے جے یو آئی کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
مولانا نے موجودہ حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور کہا کہ آئین کے مطابق قوانین قرآن و سنت کے تابع ہونے چاہئیں، لیکن زنا بالرضا کے لیے سہولیات اور کم عمر نکاح پر پابندی جیسے قوانین اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں بنائے گئے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حقوق نسواں کے نام پر اسلامی حدود کو کمزور کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسی ریاست کو کیسے اسلامی کہا جا سکتا ہے جہاں جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں اور ناجائز اعمال کی حوصلہ افزائی ہو؟
انہوں نے دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی غلط حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے، اور دینی مدرسوں کو اس کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے باجوڑ، وزیرستان، اور بلوچستان میں جے یو آئی کارکنوں کے شہدا، جن میں مولانا حسن جان، مولانا نور محمد، اور مولانا معراج الدین شامل ہیں، کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قربانیاں ملک کو صحیح نظام دینے کے لیے دی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ رمضان اور عید کے بعد بھی پندرہ سے بیس جنازے اٹھائے گئے، اور زخمی کارکن ابھی بھی اسپتالوں میں پڑے ہیں۔
عالمی سطح پر مولانا نے اسرائیل کی فلسطین، لبنان، شام، اور ایران پر بمباریوں کی مذمت کی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیڑہ سال سے اسرائیل غیر مسلح فلسطینیوں، بچوں، خواتین، اور بزرگ کو نشانہ بنا رہا ہے، اور اب ایران پر حملہ کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے امن کے دعووں کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاتھوں افغانستان، عراق، اور فلسطین میں مسلمانوں کا خون بہ رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان حکومت ٹرمپ کے لیے امن نوبل ایوارڈ کی سفارش واپس لے، کیونکہ وہ اس قابل نہیں رہا۔
انہوں نے چین اور ایشیا کی اقتصادی طاقت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی حضرت شیخ الہند اور مولانا عبیداللہ سندھی کے ایشیاٹک فیڈریشن کے نظریے کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کو “پاک مودی جنگ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی کا دور گزر چکا ہے، اور اب بھارت کو نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تین سے چار ممالک میں ایشیا کے اتحاد کے لیے کانفرنسوں میں شرکت کی، اور سارک اور آسیان جیسے فورمز کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا نے جے یو آئی کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ چھوٹے مسائل کی بجائے عالمی، خطے کے، اور ملکی مستقبل پر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کو عوام میں اتر کر ان کے مسائل، جیسے تھانوں میں انصاف کی کمی اور جاگیرداروں کا استحصال، حل کرنے چاہئیں۔ انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد ہندو، عیسائی، سکھ، شیعہ، اور بریلوی سمیت ہر مکتب فکر کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے وحدت اور شوریٰ کے نظام پر عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے اللہ کی مدد اور برکتیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے حدیث “الجماعة رحمة والفرقة عذاب” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تنظیمی جھگڑوں کو ختم کر کے صفوں میں اتحاد ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی نمائندوں نے ان سے تین بار ملاقات کی، اور وہ اصول کی بنیاد پر دوستی کے لیے تیار ہیں، لیکن غلامی کو رد کرتے ہیں۔