جمعیت علمائے اسلام پاکستان (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آج ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر اسرائیلی جارحیت کو تاریخ کا “سیاہ دھبہ” قرار دیتے ہوئے امت مسلمہ اور اسلامی حکمرانوں سے فوری عمل کی اپیل کی۔ اس پیغام میں انہوں نے غزہ میں جاری انسانی بحران کو اجاگر کیا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو “جنگی مجرم” قرار دیا، جبکہ مغربی ممالک کے دوہرے معیار پر بھی سخت تنقید کی۔ ساتھ ہی، انہوں نے پاکستان میں احتجاج اور کنونشن کے انعقاد کا اعلان کیا تاکہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جا سکے۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنے پیغام میں غزہ کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو “سفاکیت اور درندگی” سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے امن معاہدے توڑ کر غزہ پر “شب خون” مارا، جس میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 18 ہزار بچے اور 12 ہزار خواتین شامل ہیں۔ ان کے مطابق، ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد زخمی ہیں، جبکہ تین لاکھ سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “شیر خوار بچے بغیر سرپرستی کے تڑپ رہے ہیں” اور وہاں نہ ادویات ہیں نہ غذا، لیکن فلسطینیوں کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ “ان کے سر کٹ گئے، مگر جھکے نہیں،” انہوں نے فلسطینیوں کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔
مولانا نے اسرائیل کو “ناقابل اعتماد قوم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تاریخ معاہدے توڑنے اور انبیاء کے قتل سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو “اسلامی دنیا کی پیٹھ میں خنجر” سے تشبیہ دی اور کہا کہ اس کے عزائم “گریٹر اسرائیل” تک پھیلے ہوئے ہیں، جو عرب ممالک اور حرمین شریفین کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ اور یورپ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتے ہیں مگر غزہ میں جاری “قتل عام” پر صہیونیت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا جا چکا ہے، مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
اپنے پیغام کے ایک جذباتی حصے میں مولانا فضل الرحمان نے اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اقتدار اور عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے، پھر تم امریکہ کے سامنے کیوں سرنگوں ہو؟” انہوں نے کہا کہ کلمہ توحید کا تقاضہ صرف اللہ کے سامنے جھکنا ہے، مگر اسلامی حکمران مغرب کے “کٹ پتلی” بن گئے ہیں۔ انہوں نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “جرم کرنے والا اور خاموش رہنے والا دونوں برابر کے مجرم ہیں” اور حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ امت مسلمہ کی آواز بنیں۔
مولانا نے فلسطینیوں کی ہمت کی داد دیتے ہوئے کہا کہ تمام تر بربریت اور عالمی طاقتوں کی حمایت کے باوجود ان کا عزم نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائے گا۔ “کفر ذلیل ہوگا، صہیونیت شکست کھائے گی،” انہوں نے پراعتماد انداز میں کہا۔
مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ اس سلسلے میں پاکستان بھر کے علماء کرام سے رابطہ کیا گیا ہے اور 10 اپریل 2025 کو اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا ایک کنونشن منعقد ہوگا، جہاں مشترکہ حکمت عملی اور موقف اختیار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، 13 اپریل 2025 (اتوار) کو کراچی میں ایک “عظیم الشان اسرائیل مردہ باد مظاہرہ” ہوگا، جس میں صوبہ سندھ کے عوام بھرپور شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظاہرہ فلسطینیوں کی تقویت اور امت کی وحدت کا ذریعہ بنے گا، اور اسرائیل کی “حوصلہ شکنی” کا سبب ہوگا۔
آخر میں، مولانا نے امت مسلمہ سے کہا کہ وہ اپنے ممالک میں حکمرانوں پر دباؤ بڑھائیں اور انہیں ان کی ذمہ داری یاد دلائیں۔ “یہ وقت ہے کہ حکمرانوں کو جھنجھوڑا جائے،” انہوں نے زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان آزاد پیدا ہوا ہے اور کوئی طاقت اسے غلام نہیں بنا سکتی۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ فلسطین اور اہل غزہ کی حفاظت فرمائے اور امت مسلمہ کو اپنی رحمت سے نوازے۔
مولانا فضل الرحمان کا یہ پیغام نہ صرف فلسطین کے لیے ایک طاقتور آواز ہے بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک للکار بھی ہے۔ ان کے اعلان کردہ احتجاج اور کنونشن سے پاکستان میں اس معاملے پر ایک نئی تحریک شروع ہونے کے آثار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پیغام کا عالمی سطح پر کیا اثر ہوتا ہے اور اسلامی حکمران اسے کس طرح سنتے ہیں۔