سندھ کے عوام نے آج جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی قیادت میں ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا، جس کا مقصد دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبوں کو روکنا اور صوبے کے پانی کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر #JUISindhProtest ہیش ٹیگ کے تحت وائرل ہونے والے اس احتجاج کو صوبے کی تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ سکھر کے مشہور پل سے لے کر دیگر شہروں تک، ہزاروں افراد نے اس تحریک میں حصہ لیا، جو سندھ کی معیشت، ماحولیات اور تہذیبی شناخت کے دفاع کی علامت بن گئی۔
ایکس پر صارفین کے مطابق، یہ احتجاج وفاقی حکومت کے ان منصوبوں کے خلاف ہے جو مبینہ طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سندھ کے لوگوں کا موقف ہے کہ ان نہروں سے ان کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا، جو پہلے ہی ناکافی ہے۔ ایک صارف نے لکھا، “دریائے سندھ ہماری شہ رگ ہے، اسے کمزور کرنا سندھ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔” احتجاج کے شرکا نے خدشہ ظاہر کیا کہ پانی کی کمی سے زراعت برباد ہو گی، سمندری پانی اندرونِ سندھ میں داخل ہو کر زمینوں کو بنجر کر دے گا، اور پینے کے صاف پانی کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں سکھر کے پل پر ہزاروں مظاہرین کے جمع ہونے کے مناظر واضح ہیں۔ جے یو آئی کے کارکنوں اور مقامی رہنماؤں نے اس موقع پر پرجوش تقاریر کیں، جن میں انہوں نے اسے “سندھ کے بقا کی لڑائی” قرار دیا۔ ایک ویڈیو میں ایک مقرر کو یہ کہتے سنا گیا کہ “ہم اپنے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، یہ ہمارا حق ہے اور ہم اسے چھیننے نہیں دیں گے۔” ایکس پر اس اجتماع کو “سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج” کہہ کر سراہا گیا۔
جمعیت علمائے اسلام نے اس تحریک کی قیادت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو کھلا چیلنج دیا ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے جو سندھ کے عوام کی مرضی کے بغیر شروع کیا جائے۔ ایکس پر ایک صارف نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے اسے “قومی وحدت پر حملہ” قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ پارٹی نے اس احتجاج کو کسانوں، مزدوروں اور محروم طبقات کی آواز سے تعبیر کیا، اور دعویٰ کیا کہ یہ تحریک سندھ میں “سماجی انصاف” کی بنیاد رکھے گی۔
#JUISindhProtest ہیش ٹیگ آج دوپہر سے ایکس پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جس سے اس تحریک کی مقبولیت اور عوامی حمایت کا اندازہ ہوتا ہے۔ صارفین نے نہ صرف تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں بلکہ اسے “سندھو بچاؤ، سندھ بچاؤ” کے نعرے سے جوڑ کر ایک قومی بیانیہ بنانے کی کوشش کی۔ ایک پوسٹ میں لکھا گیا، “یہ صرف سندھ کا مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان کے استحکام کی جنگ ہے۔” سوشل میڈیا کے اس طوفان نے مین اسٹریم میڈیا کی توجہ بھی حاصل کی، اور کئی صارفین نے اسے “عوامی طاقت کا مظہر” قرار دیا۔
احتجاج کے دوران کچھ صارفین نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر تنقید کی، جو سندھ میں برسرِاقتدار ہے۔ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ “پی پی پی نے غریبوں کے نام پر ووٹ تو لیے، لیکن سندھ کے کسان آج بھی پانی کو ترس رہے ہیں۔” اس کے جواب میں جے یو آئی کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ صوبے کے محروم طبقات کی “حقیقی آواز” ہیں۔ تاہم، کچھ نے اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے تعبیر کیا، لیکن مجموعی طور پر احتجاج کو وسیع پذیرائی ملی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج وفاق اور صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازع کو مزید اجاگر کرے گا۔ جے یو آئی نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے اور ضرورت پڑنے پر مزید بڑے مظاہرے کریں گے۔ ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ “اگر وفاق نے سندھ کے مطالبات کو نظر انداز کیا تو یہ تحریک ملک گیر شکل اختیار کر سکتی ہے۔”
سندھ کے عوام اور جے یو آئی کی اس تحریک نے واضح کر دیا ہے کہ دریائے سندھ ان کے لیے صرف پانی کا ذریعہ نہیں، بلکہ ان کی زندگی، معیشت اور شناخت کا بنیادی ستون ہے۔ اب گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس بحران کو کس طرح حل کرتی ہے—مشاورت سے یا تنازع کے ذریعے۔