0

پاکستان کے ٹیکس ہدف میں کمی: آئی ایم ایف کا نیا فیصلہ اور اس کے اثرات

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے سالانہ ٹیکس جمع کرنے کے ہدف میں 64 ارب روپے کی نمایاں کمی کی ہے۔ اس فیصلے سے ملک کی معاشی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری معاہدے پر ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے پاکستان کے سالانہ ٹیکس وصولی کے ہدف کو 1,297 ارب روپے سے کم کر کے 1,233 ارب روپے کر دیا ہے۔ یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) رواں مالی سال کے دوران اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے ساتھ 1,233 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا وعدہ کیا تھا، لیکن ہدف میں کمی کے باوجود اسے پورا کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران ایف بی آر اپنے ٹیکس وصولی کے اہداف سے مسلسل پیچھے رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، مارچ کے مہینے میں ایف بی آر کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 1,220 ارب روپے تھا، لیکن اس نے صرف 1,113 ارب روپے جمع کیے، جو مقررہ ہدف سے 107 ارب روپے کم ہے۔ اس کے نتیجے میں، رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ٹیکس وصولی کا مجموعی خسارہ 708 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایف بی آر کی کارکردگی اور ملکی معاشی حالات پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگراموں کے تحت معاشی اصلاحات پر عمل پیرا ہے۔ ان پروگراموں کے تحت ٹیکس وصولی میں اضافہ ایک اہم شرط رہی ہے تاکہ ملکی خزانے کو مستحکم کیا جا سکے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے وسائل پیدا کیے جا سکیں۔ تاہم، معاشی سست روی، ٹیکس دہندگان کی کم تعداد، اور انتظامی مسائل کی وجہ سے ایف بی آر مسلسل اپنے اہداف سے محروم رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ہدف میں کمی کو کچھ ماہرین پاکستان کی معاشی مشکلات کو تسلیم کرنے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ دیگر اسے ایف بی آر کی ناکامی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ٹیکس ہدف میں کمی کے فیصلے سے پاکستان کے مالیاتی اہداف پر نظرثانی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر ایف بی آر اپنی کارکردگی بہتر نہ کر سکا تو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے نئے چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری جانب، حکومت کو ٹیکس نظام میں اصلاحات، ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے، اور انتظامی صلاحیت کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دینا ہوگی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے خسارے سے بچا جا سکے۔

یہ صورتِ حال ملکی معیشت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، اور اس کے اثرات نہ صرف مالیاتی پالیسیوں بلکہ عوام کے روزمرہ اخراجات اور مجموعی معاشی استحکام پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور ایف بی آر اس نئے ہدف کو کس طرح پورا کرتے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کو کس حد تک مستحکم رکھ پاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں