0

پاکستان میں غیر قانونی غیر افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی واپسی کی مہلت ختم: سخت کارروائی کا آغاز

اسلام آباد: پاکستان کی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز کو ملک چھوڑنے کی دی گئی ڈیڈ لائن آج یکم اپریل 2025 کو ختم ہو گئی۔ اب اس مقررہ تاریخ کے گزر جانے کے بعد، متعلقہ افراد کے خلاف سخت قانونی اقدامات شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، اب تک 8 لاکھ 85 ہزار 902 غیر قانونی Afghan باشندے پاکستان سے واپس جا چکے ہیں، اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ محکمہ داخلہ کے حکام نے بتایا کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے لیے باعزت واپسی کا مناسب وقت فراہم کیا گیا تھا، لیکن اب یکم اپریل سے ان کی ڈپورٹیشن کا عمل شروع ہو گا۔ پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی کل تعداد مختلف دستاویزات کے تحت درج ذیل ہے:

پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) کارڈ ہولڈرز: 13 لاکھ 44 ہزار 584
افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز: 3 لاکھ 7 ہزار 647

خیبر پختونخوا میں Afghan مہاجرین کے 43 کیمپس موجود ہیں، جہاں کل 7 لاکھ 9 ہزار 278 رجسٹرڈ Afghan باشندے مقیم ہیں۔ ان میں سے 3 لاکھ 44 ہزار 908 کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ سال 2013 سے اب تک 4 لاکھ 65 ہزار Afghan مہاجرین طورخم بارڈر کے راستے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔

صوبائی تقسیم کے لحاظ سے رجسٹرڈ Afghan مہاجرین کی تعداد یہ ہے:
بلوچستان: 3 لاکھ 17 ہزار
پنجاب: 1 لاکھ 96 ہزار
سندھ: 74 ہزار 117
اسلام آباد: 42 ہزار 718
آزاد کشمیر: 4 ہزار 448

حکومت نے واضح کیا کہ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن کے بعد اب غیر قانونی طور پر مقیم افراد اور Afghan سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ “پاکستان نے Afghan مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دی، لیکن اب ملکی سلامتی اور وسائل کے تحفظ کے پیش نظر یہ فیصلہ ناگزیر ہو گیا تھا۔” انہوں نے مزید کہا کہ واپسی کے عمل کو باوقار بنانے کے لیے کافی مہلت دی گئی، لیکن اب قانون پر عمل درآمد شروع ہو گا۔

خیبر پختونخوا، جو Afghan مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کرتا ہے، وہاں امدادی اور انتظامی اداروں کو اس عمل کے نفاذ میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کیمپوں میں رہائش پذیر Afghan باشندوں کے علاوہ شہری علاقوں میں مقیم افراد کی شناخت اور ان کی واپسی ایک پیچیدہ عمل ہے۔ بلوچستان اور سندھ جیسے صوبوں میں بھی، جہاں Afghan کمیونٹیز کئی دہائیوں سے قائم ہیں، اس فیصلے کے معاشی اور سماجی اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔

اس فیصلے پر انسانی حقوق کے اداروں اور Afghan حکومت کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم، پاکستان نے اپنے موقف کو ملکی خودمختاری اور سلامتی سے جوڑتے ہوئے اسے حتمی قرار دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ Afghan سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی ڈپورٹیشن کے بعد اگلا مرحلہ دیگر غیر قانونی مقیم افراد اور ممکنہ طور پر پی او آر کارڈ ہولڈرز کے مستقبل کا تعین ہو سکتا ہے، جنہیں فی الحال جون 2025 تک قیام کی اجازت دی گئی ہے۔

یہ عمل پاکستان کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، جو نہ صرف اس کے اندرونی حالات بلکہ Afghanستان کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اور اس کے طویل مدتی نتائج کیا نکلتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں