کینیڈا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نافذ کردہ تجارتی پابندیوں کے بعد اپنی فوجی اور دفاعی طاقت کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر دفاع بِل بلیئر نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات نے کینیڈا کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “امریکی صدر کا موجودہ رویہ ہمارے لیے غیر معمولی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہمیں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرنا ہوگا تاکہ اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا جا سکے۔” بلیئر نے مزید وضاحت کی کہ کینیڈا اب اپنی دفاعی حکمتِ عملی پر نظرثانی کر رہا ہے اور اس سلسلے میں فوجی سازوسامان کی جدید کاری اور دفاعی بجٹ میں اضافے سمیت کئی اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں، خاص طور پر تجارتی پابندیوں نے، کینیڈا کو اپنی معاشی اور دفاعی خود انحصاری پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کیا ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے سے قائم معاشی تعلقات کو متاثر کرنے والے ان اقدامات کے بعد کینیڈا کی حکومت اپنے دفاع کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
اس فیصلے کے تحت کینیڈا کی جانب سے ممکنہ طور پر نئے جنگی طیاروں کی خریداری، بحری بیڑے کی توسیع، اور سائبر سیکیورٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری جیسے منصوبوں پر عمل درآمد متوقع ہے۔ بلیئر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اقدامات نہ صرف ملکی سلامتی کو یقینی بنائیں گے بلکہ عالمی سطح پر کینیڈا کے کردار کو بھی مستحکم کریں گے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کینیڈا اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں، جو نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات بلکہ شمالی امریکی خطے کی مجموعی سلامتی کی صورتِ حال کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔