0

وزیر اعظم شہباز شریف نے سولر صارفین پر نیٹ میٹرنگ پالیسی کی مخالفت کر دی: تفصیلی جائزہ

اسلام آباد: وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی وزراء نے سولر صارفین پر نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کی منظوری کی مخالفت کر دی ہے، جس کے نتیجے میں سولر استعمال کرنے والے صارفین پر اضافی ٹیکس کی منظوری روک دی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر توانائی اویس لغاری کو اس پالیسی پر نظر ثانی کی ہدایت دی ہے، تاکہ اسے صارفین کے لیے زیادہ منصفانہ بنایا جا سکے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز میں ترامیم کی منظوری دی تھی، جس سے سولر پینلز سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمتوں پر نمایاں اثر پڑتا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے تحت نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں بائی بیک ریٹ کو 27 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے سولر صارفین جو اپنی اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو فروخت کرتے ہیں، انہیں فی یونٹ 27 روپے کے بجائے صرف 10 روپے ملیں گے۔ دوسری طرف، انہی صارفین کو گرڈ سے بجلی خریدنے کے لیے 42 روپے فی یونٹ (آف پیک) اور 48 روپے فی یونٹ (پیک آورز) ادا کرنے ہوں گے، جس پر 18 فیصد ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز بھی عائد ہوں گی۔ اس سے سولر صارفین کے مالی فوائد میں نمایاں کمی متوقع تھی، کیونکہ انہیں گرڈ سے بجلی مہنگے داموں خریدنی پڑتی، جبکہ ان کی پیدا کردہ بجلی سستے داموں فروخت ہوتی۔

حکومت کا موقف تھا کہ یہ فیصلہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر کیا گیا، کیونکہ اس سے گرڈ پر انحصار کرنے والے عام صارفین پر اضافی بوجھ پڑ رہا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق، نیٹ میٹرنگ صارفین میں سے 80 فیصد کا تعلق ملک کے 9 بڑے شہروں سے ہے، جو زیادہ تر متوسط اور بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے گرڈ سے بجلی کی طلب کم ہو رہی ہے، جس سے بجلی کی مجموعی لاگت بڑھ رہی ہے، اور یہ اضافی بوجھ غریب صارفین پر منتقل ہو رہا ہے۔

تاہم، اس پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت سولر صارفین کی شکایات اور خدشات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ یہ واضح کیا گیا کہ نظر ثانی شدہ فریم ورک کا اطلاق موجودہ نیٹ میٹرنگ صارفین پر نہیں ہوگا، اور وہ اپنی سات سالہ معاہدہ مدت پوری کرنے کے بعد ہی نئے نظام کا حصہ بنیں گے۔

مسلم لیگ (ن) نے ماضی میں سولر انرجی کو عوام کے لیے ریلیف کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس کے فروغ کی حمایت کی تھی۔ 2015 اور 2016 میں بھی پارٹی کا یہی مؤقف تھا کہ سولر پاور سے نہ صرف بجلی کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مہنگائی کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایک بڑے سولر منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا مقصد غریب اور متوسط طبقے کو سستی بجلی فراہم کرنا تھا، لیکن وفاقی سطح پر نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت بائی بیک ریٹ کم کرنے کی تجویز نے اس مؤقف کے برعکس ایک نیا تناقض پیدا کر دیا۔

ایک سال کے اندر سولر انرجی کی حوصلہ افزائی سے حوصلہ شکنی تک کا سفر حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ 2022 میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سولر ٹیکنالوجی کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاکہ سولر انرجی کو فروغ دیا جا سکے۔ لیکن اب، نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت بائی بیک ریٹ کم کرنے کی تجویز سے سولر صارفین کے مالی فوائد کم ہو رہے ہیں، جس سے سولر انرجی کی تنصیب کی لاگت واپس نکلنے کا دورانیہ 3-4 سال سے بڑھ کر 10-12 سال تک جا پہنچا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کا مقصد گرڈ پر انحصار کرنے والے عام صارفین کے لیے بجلی سستی بنانا ہے، لیکن اس دعوے کی حقیقت پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے تحت سولر صارفین اپنی اضافی بجلی گرڈ کو فروخت کرتے ہیں، جس سے گرڈ پر بجلی کی دستیابی بڑھتی ہے۔ اگر بائی بیک ریٹ کم کر دیا جاتا ہے، تو سولر صارفین کے لیے یہ نظام مالی طور پر کم پرکشش ہو جائے گا، اور نئے صارفین سولر پینلز لگانے سے گریز کریں گے۔ اس سے سولر انرجی کے فروغ کو نقصان پہنچے گا، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک پائیدار توانائی کا ذریعہ ہو سکتا ہے، جہاں بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے ایندھن جیسے فرنس آئل اور ڈیزل پر انحصار کیا جاتا ہے۔

مزید یہ کہ، نیٹ میٹرنگ صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے گرڈ پر بوجھ کم ہو رہا ہے، جو طویل مدت میں بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کر سکتا ہے۔ لیکن حکومت کا موقف ہے کہ نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے بجلی کی طلب کم ہو رہی ہے، جس سے بجلی کمپنیوں کو کیپسٹی چارجز ادا کرنے میں مشکلات ہو رہی ہیں، اور یہ بوجھ غریب صارفین پر منتقل ہو رہا ہے۔ یہ دلیل کچھ حد تک درست ہو سکتی ہے، کیونکہ نیٹ میٹرنگ زیادہ تر متوسط اور بالائی طبقے کے صارفین استعمال کر رہے ہیں، لیکن اس کا حل سولر انرجی کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ غریب صارفین کے لیے سولر سسٹمز تک رسائی آسان بنانا ہو سکتا ہے، جیسا کہ پنجاب حکومت کے حالیہ منصوبے کا مقصد ہے۔

حکومت کی پالیسیوں میں یہ تناقض اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سولر انرجی کے حوالے سے کوئی واضح طویل مدتی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ ایک طرف سولر انرجی کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے، جیسا کہ 2022 میں ٹیکس ختم کرنے کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے، اور دوسری طرف نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کے ذریعے اس کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ یہ متضاد پالیسیاں نہ صرف صارفین کے اعتماد کو متاثر کرتی ہیں بلکہ متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے کے حکومتی دعووں پر بھی سوالات اٹھاتی ہیں۔

X پر موجود پوسٹس کے مطابق، اس پالیسی پر عوامی ردعمل ملے جلے جذبات کا حامل ہے۔ کچھ صارفین نے نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کو سولر صارفین کے ساتھ دھوکہ قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے غریب صارفین کے لیے ریلیف کا ذریعہ سمجھا۔ مثال کے طور پر، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت نے پہلے سولر انرجی کو فروغ دینے کی بات کی، لیکن اب اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، جو ایک متضاد پالیسی ہے۔ تاہم، یہ پوسٹس غیر مصدقہ ہیں اور انہیں حتمی رائے کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کی مخالفت اور اس پر نظر ثانی کی ہدایت ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے سولر صارفین کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، یہ فیصلہ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کے فقدان کو بھی عیاں کرتا ہے۔ سولر انرجی پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک پائیدار حل ہو سکتی ہے، جہاں بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے ایندھن پر انحصار کیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سولر انرجی کی حوصلہ شکنی کے بجائے اسے غریب اور متوسط طبقے تک رسائی کے قابل بنائے، تاکہ نہ صرف بجلی کی قلت پر قابو پایا جا سکے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کیا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں