اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے اپنے حالیہ اجلاس میں ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے بغیر اجازت دوسری شادی پر پہلی بیوی کو فسخ نکاح کا حق دینے کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے۔ یہ اجلاس چیئرمین راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں کئی دیگر اہم امور پر بھی غور کیا گیا۔
کونسل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی عدالت پہلی بیوی کو بغیر اجازت دوسری شادی کی صورت میں نکاح ختم کرنے کا حق دیتی ہے، تو یہ فیصلہ شریعت کے مطابق درست نہیں ہے۔ کونسل کے مطابق، شریعت میں مرد کو دوسری، تیسری، یا چوتھی شادی کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ تمام بیویوں کے ساتھ انصاف اور مساوات کا رویہ رکھے۔ اس موقف کی بنیاد پر، کونسل نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو شریعت کے منافی قرار دیا، جس میں گزشتہ سال 23 اکتوبر 2024 کو کہا گیا تھا کہ بغیر اجازت دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی اپنا نکاح ختم کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 18 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں جاری کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اگر شوہر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے، تو پہلی بیوی کے پاس اپنا نکاح ختم کرنے کا قانونی حق ہے۔ تاہم، اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے شریعت کے اصولوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مرد پر ایسی کوئی قدغن شریعت میں موجود نہیں ہے، اور نہ ہی پہلی بیوی کو اس بنیاد پر فسخ نکاح کا حق دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت، دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے تحریری اجازت لینا لازمی ہے۔ اس قانون کے مطابق، اگر کوئی شخص بغیر اجازت دوسری شادی کرتا ہے، تو اسے ایک سال تک قید، پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ، اس صورت میں پہلی بیوی کو فوری طور پر حق مہر کی ادائیگی بھی کرنا ہوتی ہے۔ اس قانون کی پاسداری کے لیے یونین کونسل کے چیئرمین کی سربراہی میں ایک ثالثی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، جو دوسری شادی کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
تاہم، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کو 2013-14 سے ہی شریعت کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ کونسل کا موقف ہے کہ شریعت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتی ہے، اور اس کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لینا شرعی طور پر ضروری نہیں ہے۔ کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے 2014 میں کہا تھا کہ موجودہ قوانین شریعت کے مطابق نہیں ہیں، اور ان میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کے 2024 کے فیصلے کے بعد، کئی حلقوں نے اسے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا تھا۔ تاہم، اسلامی نظریاتی کونسل کے تازہ فیصلے نے اس پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کونسل کے چیئرمین راغب نعیمی نے کہا کہ اگرچہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن انہیں شرعی رائے دینے کا حق حاصل ہے، اور ان کے نزدیک یہ فیصلہ لینڈ آف لاء کے مطابق ہو سکتا ہے، مگر شریعت کے منافی ہے۔
X پر موجود پوسٹس کے مطابق، اس فیصلے پر عوامی ردعمل ملے جلے جذبات کا حامل ہے۔ کچھ صارفین نے کونسل کے فیصلے کو شریعت کی درست تشریح قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے خواتین کے حقوق کے خلاف ایک پسماندہ قدم سمجھا۔ ایک صارف نے لکھا کہ “یہ فیصلہ خواتین کے ساتھ ناانصافی ہے، کیونکہ انہیں اپنے حقوق کے تحفظ کا موقع نہیں دیا جا رہا۔” تاہم، یہ پوسٹس غیر مصدقہ ہیں اور انہیں حتمی رائے کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اجلاس میں کونسل نے کئی دیگر اہم امور پر بھی فیصلے کیے:
تھیلیسمیا اور متعدی امراض کے ٹیسٹ: کونسل نے کہا کہ نکاح سے قبل تھیلیسمیا یا دیگر متعدی امراض کے ٹیسٹ کو اختیاری طور پر نکاح نامے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، لیکن شرعاً نکاح فریقین کی مرضی پر منحصر ہے، اور اسے لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انسانی اعضا کی پیوندکاری: کونسل نے زندگی کو خطرے میں ڈالے بغیر انسانی اعضا کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا، بشرطیکہ یہ شرعی اصولوں کے مطابق ہو۔
اسلامی اصطلاحات کا استعمال: کونسل نے سفارش کی کہ اسلامی اصطلاحات جیسے “صلاة”، “آیت”، اور “مسجد” کی انگریزی ترجمہ کے بجائے اصل عربی الفاظ ہی استعمال کیے جائیں۔
بجلی چوری کے خلاف آواز: کونسل نے اہل علم و فکر سے کہا کہ وہ بجلی چوری کے خلاف آواز اٹھائیں، کیونکہ یہ شرعاً ناجائز ہے۔
انسانی دودھ بینک: انسانی دودھ بینک کے معاملے کو کونسل نے آئندہ اجلاس کے لیے موخر کر دیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بحث عروج پر ہے۔ سپریم کورٹ کا 2024 کا فیصلہ خواتین کو اپنے حقوق کے تحفظ کا ایک قانونی راستہ فراہم کرتا تھا، لیکن کونسل کے تازہ فیصلے نے اسے شریعت کے منافی قرار دے کر ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
ایک طرف، کونسل کا موقف شریعت کی روایتی تشریح پر مبنی ہے، جو مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ انصاف کرے۔ قرآن کی سورہ النساء (آیت 3) میں کہا گیا ہے کہ اگر مرد انصاف نہ کر سکے تو اسے ایک بیوی تک محدود رہنا چاہیے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ پہلی بیوی کی اجازت کی شرط شریعت میں موجود نہیں، اور اسے قانون سے ہٹایا جانا چاہیے۔
دوسری طرف، یہ فیصلہ خواتین کے حقوق کے کارکنوں کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کا مقصد خواتین کو تحفظ دینا تھا، تاکہ وہ بغیر اجازت دوسری شادی کی صورت میں اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔ کونسل کے فیصلے سے یہ تحفظ کمزور ہو سکتا ہے، کیونکہ اب پہلی بیوی کے پاس فسخ نکاح کا قانونی حق نہیں رہے گا، اور وہ اپنے شوہر کی دوسری شادی کے فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکے گی۔
مزید یہ کہ، کونسل کا فیصلہ اس تناظر میں بھی سوالات اٹھاتا ہے کہ کیا یہ مردوں کو غیر مشروط طور پر دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے، بغیر اس بات کی پابندی کے کہ وہ انصاف کریں؟ پاکستان میں کئی کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ مرد دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کے حقوق ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس سے خواتین کو مالی، جذباتی، اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2024 میں لاہور کی ایک فیملی کورٹ نے ایک شخص کو بغیر اجازت دوسری شادی پر 7 ماہ قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، جو اس قانون کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فیصلہ شریعت کی روایتی تشریح پر مبنی ہے، لیکن اس سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے نئے چیلنجز جنم لے سکتے ہیں۔ اگرچہ کونسل کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہے، لیکن موجودہ دور کے سماجی حالات میں اسے خواتین کے حقوق کے خلاف ایک پسماندہ قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت اور قانون ساز اداروں کو اس معاملے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شریعت کے اصولوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔