0

گوشواروں کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر 10 سابق ارکان قومی اسمبلی سمیت دیگر ارکان نااہل قرار

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مالی سال 2022-23 کے اثاثوں اور گوشواروں کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر قومی اسمبلی کے 10 سابق ارکان کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے 7، 7 سابق ارکان کو بھی نااہل کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے 25 مارچ 2025 کو جاری کیا، جس کے مطابق یہ سابق ارکان جب تک اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات (فارم بی) جمع نہیں کراتے، وہ عام انتخابات، ضمنی انتخابات، اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔

نااہل قرار دیے گئے سابق ارکان کی تفصیلات

قومی اسمبلی کے سابق ارکان:

خرم دستگیر خان

محسن نواز رانجھا

محمد عادل

رانا محمد اسحاق خان

کمال الدین

عصمت اللہ

ثمینہ مطلوب

نصیبہ

شمیم آرا پنہور

روبینہ عرفان

سندھ اسمبلی کے سابق ارکان:

عدیل احمد

حزب اللہ بھگیو

ارسلان تاج حسین

عارف مصطفیٰ جتوئی

عمران علی شاہ

علی غلام

طاہرہ

بلوچستان اسمبلی کے سابق ارکان:

میر سکندر علی

میر محمد اکبر

سردار یار رند

عبدالرشید

عبدالواحد صدیقی

میر حمال

بی بی شاہینہ

الیکشن کمیشن کے مطابق، تمام ارکان پارلیمنٹ اپنے، اپنی اہلیہ، اور زیر کفالت افراد کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کے پابند ہیں۔ یہ تقاضا الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 137 کے تحت ہے، جو ارکان کو ہر مالی سال کے اختتام پر اپنے گوشوارے جمع کرانے کا پابند بناتی ہے۔ اگر کوئی رکن مقررہ تاریخ (31 دسمبر) تک گوشوارے جمع نہیں کراتا، تو اس کی رکنیت معطل کی جا سکتی ہے، اور اگر وہ سابق رکن ہے تو وہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہتا جب تک کہ تفصیلات جمع نہ کرا دی جائیں۔ اس کیس میں، چونکہ یہ ارکان اب سابقہ حیثیت رکھتے ہیں، ان پر نااہلی کی سزا عائد کی گئی ہے، جو ان کے مستقبل کے سیاسی کیریئر پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن نے گوشواروں کی عدم جمع کرانے پر ارکان کے خلاف کارروائی کی ہو۔ جنوری 2025 میں، الیکشن کمیشن نے 645 موجودہ ارکان اسمبلی اور 43 سینیٹرز کو نوٹسز جاری کیے تھے، جن میں وفاقی وزیر عطا تارڑ، مولانا فضل الرحمٰن، خورشید شاہ، اور دیگر نمایاں شخصیات شامل تھیں۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کے 208، سندھ اسمبلی کے 55، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 91، اور بلوچستان اسمبلی کے 25 ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے تھے۔ الیکشن کمیشن نے ان ارکان کو 15 جنوری تک کی مہلت دی تھی، لیکن اس کے باوجود بہت سے ارکان نے تفصیلات جمع نہیں کرائیں، جس کے نتیجے میں ان کی رکنیت معطلی کے خطرے سے دوچار ہوئی۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ قانوناً الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ گوشواروں کی عدم جمع کرانے پر ارکان کو نااہل قرار دے، لیکن کچھ مبصرین اسے سیاسی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، نااہل قرار دیے گئے قومی اسمبلی کے سابق ارکان میں خرم دستگیر خان اور محسن نواز رانجھا جیسے مسلم لیگ (ن) کے نمایاں رہنما شامل ہیں، جو حالیہ برسوں میں اپوزیشن کے اہم رہنماؤں میں سے رہے ہیں۔ اسی طرح، سندھ اسمبلی کے کئی سابق ارکان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، جو سندھ میں حکمراں جماعت ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، اور کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے بعض سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کا حصہ ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب، الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر قانون کے مطابق ہے اور اس کا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ گوشواروں کی عدم جمع کرانے کا معاملہ نہ صرف مالی شفافیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ عوام کے سامنے منتخب نمائندوں کی جوابدہی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ تاہم، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اس قانون کو تمام ارکان پر یکساں طور پر نافذ کر رہا ہے؟ حالیہ رپورٹس کے مطابق، 2025 کے اوائل میں 645 موجودہ ارکان اسمبلی نے بھی گوشوارے جمع نہیں کرائے تھے، لیکن ان کے خلاف اب تک کوئی حتمی کارروائی نہیں کی گئی، جبکہ سابق ارکان کے خلاف فوری طور پر نااہلی کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ یہ دوہرا معیار الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتا ہے۔

X پر موجود پوسٹس کے مطابق، اس فیصلے پر عوامی ردعمل ملے جلے جذبات کا حامل ہے۔ کچھ صارفین نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سراہا اور اسے شفافیت کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے سیاسی انتقام کا نتیجہ قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ “یہ فیصلہ درست ہے، لیکن کیا موجودہ ارکان کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی ہوگی؟” ایک اور صارف نے تبصرہ کیا کہ “یہ سب سیاسی کھیل ہے، الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔” یہ پوسٹس ظاہر کرتی ہیں کہ عوام میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اعتماد اور شک دونوں موجود ہیں، لیکن یہ معلومات حتمی طور پر درست نہیں سمجھی جا سکتیں کیونکہ X پر پوسٹس اکثر غیر مصدقہ ہوتی ہیں۔

الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قومی اسمبلی کے 10 سابق ارکان، سندھ اسمبلی کے 7، اور بلوچستان اسمبلی کے 7 سابق ارکان کی نااہلی سے ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ شفافیت کے اصولوں کی پاسداری کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے، لیکن الیکشن کمیشن کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس طرح کے فیصلے تمام ارکان پر یکساں طور پر نافذ ہوں، تاکہ ادارے کی غیر جانبداری پر سوالات نہ اٹھیں۔ اس کے علاوہ، یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ اپنے ارکان کو مالی شفافیت کے تقاضوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیں، ورنہ انہیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں