0

وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج 2025 کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت جاری کر دی

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج 2025 کے تحت فنڈز کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ یہ فیصلہ ایک جائزہ اجلاس کے دوران کیا گیا، جس میں حکام نے وزیراعظم کو پیکیج کی پیشرفت کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں بتایا گیا کہ اب تک 63 فیصد مستحقین کو مالی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔ تمام تر فنڈز کی تقسیم کی دستاویزی تفصیلات موجود ہیں، جو شفافیت کے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس پروگرام کے نفاذ کے لیے 2,224 ملازمین تعینات کیے گئے ہیں، اور اب تک ڈیڑھ ملین سے زائد مستحقین کو ٹیلیفون کالز کے ذریعے رابطہ کیا جا چکا ہے تاکہ انہیں امداد کے عمل سے آگاہ کیا جا سکے۔

اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ رمضان ریلیف پیکیج پورے پاکستان، بشمول گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر، کے لیے بلاتفریق متعارف کرایا گیا ہے۔ انہوں نے اس پیکیج کو شفاف بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نادرا، اور ٹیک اداروں کی کاوشوں کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ “رمضان ریلیف پیکیج میں پیسے مستحقین تک ڈیجیٹل والٹ کے انتہائی سہل اور شفاف نظام کے ذریعے پہنچائے جا رہے ہیں، اور اس ماڈل کو دیگر حکومتی سکیموں میں بھی اپنایا جائے گا۔”

وزیراعظم نے اجلاس کے دوران رمضان ریلیف پیکیج کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت دی تاکہ فنڈز کی تقسیم میں مکمل شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت اس پروگرام کے حوالے سے کسی بھی قسم کی بدعنوانی یا غیر شفافیت کے الزامات سے بچنا چاہتی ہے۔ ماضی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے امداد کی تقسیم کے دوران بدعنوانی اور خراب معیار کی اشیا کی تقسیم کے شکایات سامنے آئی تھیں، جس کے بعد اس بار ڈیجیٹل والٹ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ٹیلی کام کمپنیوں اور بینکوں کو ہدایت دی کہ وہ رمضان ریلیف پیکیج کے حوالے سے چلائی جانے والی آگہی مہم کو مزید مؤثر بنائیں۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ ترتیب دینے کی بھی ہدایت کی تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ عوام تک معلومات کس حد تک مؤثر طریقے سے پہنچ رہی ہیں۔ اس سے قبل، وزیراعظم نے نوٹ کیا تھا کہ ڈیجیٹل والٹ سے فنڈز کی واپسی کی شرح صرف 20 فیصد ہے، جس کی بڑی وجہ آگہی کی کمی ہے۔ انہوں نے مستحقین سے اپیل کی تھی کہ وہ 9999 پر کال کر کے ڈیجیٹل والٹ کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔

اجلاس میں وفاقی وزراء رانا تنویر حسین (خوراک کی حفاظت)، احد چیمہ (اقتصادی امور)، عطاء اللہ تارڑ (اطلاعات و نشریات)، شزا فاطمہ (آئی ٹی)، وزیر پٹرولیم علی پرویز ملک، معاون خصوصی ہارون اختر، چیئرمین نادرا، اور چیئرمین پی ٹی اے سمیت دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔

رمضان ریلیف پیکیج 2025 کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف نے 28 فروری 2025 کو کیا تھا۔ اس پیکیج کے تحت 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے 40 لاکھ مستحق خاندانوں (تقریباً 2 کروڑ افراد) کو فی خاندان 5,000 روپے کی مالی امداد فراہم کی جانی ہے۔ یہ امداد ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے تقسیم کی جا رہی ہے تاکہ طویل قطاروں اور بدعنوانی کے مسائل سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ، کچھ اطلاعات کے مطابق، اس پیکیج میں ضروری اشیا جیسے آٹا، چینی، دالیں، گھی، اور چاول پر سبسڈی بھی شامل ہے، جو خصوصی رمضان بازاروں کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔

رمضان ریلیف پیکیج 2025 کا ڈیجیٹل والٹ سسٹم متعارف کرانا ایک مثبت قدم ہے، کیونکہ اس سے شفافیت بڑھتی ہے اور ماضی کے مقابلے میں بدعنوانی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ تاہم، اس سسٹم کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام اسے کس حد تک سمجھ اور استعمال کر پاتے ہیں۔ 20 فیصد واپسی کی شرح سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے مستحقین یا تو ڈیجیٹل والٹ کے استعمال سے ناواقف ہیں یا انہیں اس تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، تھرڈ پارٹی آڈٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے، لیکن اس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوگی کہ آڈٹ کرانے والی کمپنی کتنی غیر جانبدار اور معتبر ہے۔ ماضی میں حکومتی پروگراموں کے آڈٹ کے دوران غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، اور اس بار بھی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ آڈٹ واقعی شفاف ہو۔

مزید برآں، اگرچہ 63 فیصد مستحقین تک امداد پہنچائی جا چکی ہے، لیکن باقی 37 فیصد تک جلد از جلد امداد پہنچانا ضروری ہے، کیونکہ رمضان کا مہینہ جاری ہے اور مستحقین کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے۔ آگہی مہم کو بہتر بنانے کی ہدایت درست سمت میں ایک قدم ہے، لیکن اس کے نتائج کا جائزہ لینے کے لیے ایک مؤثر مانیٹرنگ سسٹم کی بھی ضرورت ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے رمضان ریلیف پیکیج 2025 کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی ہدایت اور ڈیجیٹل والٹ سسٹم کے ذریعے امداد کی تقسیم ایک قابل تحسین اقدام ہے، جو شفافیت اور کارکردگی کو بڑھانے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، اس پروگرام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آگہی مہم کو مزید مؤثر بنایا جائے، باقی مستحقین تک جلد از جلد امداد پہنچائی جائے، اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کو غیر جانبدار طریقے سے انجام دیا جائے۔ یہ پیکیج نہ صرف رمضان کے دوران مستحق خاندانوں کے لیے مالی ریلیف کا باعث بن سکتا ہے بلکہ مستقبل کے حکومتی پروگراموں کے لیے ایک ماڈل بھی فراہم کر سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں