اگر آپ کے کانوں میں مسلسل گھنٹی یا گونجنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں، تو یہ Tinnitus نامی حالت ہو سکتی ہے، جو دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کرتی ہے۔ عام طور پر شور والے ماحول سے بچنے کے لیے ایئر پلگ کا استعمال Tinnitus کے خطرے کو کم کرتا ہے، لیکن اب ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ آپ کی غذا میں سادہ تبدیلیاں بھی اس پریشان کن حالت سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
چین کے سیچوان سے تعلق رکھنے والے سینئر محقق کنزیو ژانگ کی سربراہی میں کی گئی اس تحقیق کو بی ایم جے (BMJ) جرنل میں شائع کیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق، زیادہ پھل، غذائی فائبر، کیفین، اور ڈیری مصنوعات (جیسے دودھ) کا استعمال Tinnitus کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔ محققین نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ “موجودہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پھل، غذائی فائبر، کیفین، اور ڈیری کا استعمال Tinnitus کے کم واقعات سے منسلک پایا جاتا ہے۔”
Tinnitus ایک ایسی حالت ہے جس میں متاثرہ شخص کے کانوں میں مسلسل گھنٹی، سیٹی، یا گونجنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو بیرونی ماحول سے نہیں بلکہ اندرونی طور پر پیدا ہوتی ہیں۔ یہ حالت اکثر شور والے ماحول میں زیادہ وقت گزارنے، تناؤ، یا سمعی اعصاب کے نقصان کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً 10 سے 15 فیصد افراد اس حالت سے متاثر ہیں، اور یہ ان کی روزمرہ زندگی، نیند، اور ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
محققین نے اپنی تحقیق میں مختلف غذائی عادات اور ان کے Tinnitus پر اثرات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے پایا کہ:
پھل اور غذائی فائبر: زیادہ پھل اور فائبر والی غذائیں کھانے سے جسم میں سوزش (inflammation) کم ہوتی ہے، جو Tinnitus کے خطرے کو کم کر سکتی ہے۔ فائبر خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے، جو سمعی نظام کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
کیفین: کافی یا چائے میں موجود کیفین دماغی سرگرمیوں کو بہتر بناتی ہے اور تناؤ کو کم کرتی ہے، جو Tinnitus کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
ڈیری مصنوعات: دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات میں موجود غذائی اجزا، جیسے کہ وٹامن ڈی اور کیلشیم، سمعی اعصاب کی صحت کو سہارا دیتے ہیں، جو Tinnitus کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔
کنزیو ژانگ نے کہا، “Tinnitus کی روک تھام کے لیے خوراک پر مبنی حکمت عملی اس دائمی بیماری کے انتظام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ متوازن غذا نہ صرف عمومی صحت کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ سمعی نظام کی حفاظت میں بھی مددگار ہو سکتی ہے۔”
اگرچہ غذا Tinnitus کے خطرے کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، لیکن ماہرین نے دیگر احتیاطی تدابیر پر بھی زور دیا ہے:
شور سے بچاؤ: بلند آواز والے ماحول سے بچنے کے لیے ایئر پلگ یا ایئر مفلر کا استعمال کریں، خاص طور پر اگر آپ کنسرٹس، فیکٹریوں، یا دیگر شور والے مقامات پر وقت گزارتے ہیں۔
تناؤ کا انتظام: تناؤ Tinnitus کی شدت کو بڑھا سکتا ہے، اس لیے یوگا، مراقبہ، یا دیگر تناؤ کم کرنے والی سرگرمیوں کو اپنائیں۔
سماعت کی جانچ: اگر آپ کو Tinnitus کے آثار محسوس ہوں تو فوری طور پر ماہر امراضِ کان (ENT) سے رجوع کریں تاکہ سماعت کے نقصان یا دیگر مسائل کی تشخیص ہو سکے۔
یہ تحقیق Tinnitus کے علاج اور روک تھام کے لیے ایک نئی سمت کی نشاندہی کرتی ہے، لیکن اس کے کچھ حدود بھی ہیں۔ سب سے پہلے، یہ تحقیق مشاہداتی (observational) ڈیٹا پر مبنی ہے، جو وجہ اور نتیجے کے تعلق کو مکمل طور پر ثابت نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر، یہ واضح نہیں کہ کیا واقعی پھل اور فائبر کھانے سے Tinnitus کم ہوتا ہے، یا پھر یہ لوگ مجموعی طور پر صحت مند طرز زندگی اپناتے ہیں، جو اس حالت کو کم کرتا ہے۔
مزید برآں، کیفین کے استعمال کے بارے میں متضاد رائے موجود ہے۔ کچھ مطالعات کے مطابق، کیفین Tinnitus کی شدت کو بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر ان افراد میں جو پہلے سے تناؤ یا نیند کی کمی کا شکار ہیں۔ اس لیے، کیفین کے استعمال سے متعلق سفارشات کو احتیاط کے ساتھ اپنانا چاہیے۔
اس کے باوجود، یہ تحقیق اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ غذا ہماری مجموعی صحت، بشمول سمعی نظام، پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ Tinnitus کے شکار افراد کے لیے یہ ایک امید افزا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو دوائیوں یا دیگر علاج سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
Tinnitus ایک پریشان کن حالت ہے جو زندگی کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سادہ غذائی تبدیلیاں، جیسے کہ زیادہ پھل، فائبر، اور ڈیری کا استعمال، اس کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں۔ اگرچہ یہ تحقیق ابتدائی ہے، لیکن یہ Tinnitus کے مریضوں کے لیے ایک نئی امید کی کرن ہے۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر آپ کو Tinnitus کے آثار محسوس ہوں تو اپنی غذا کو بہتر بنائیں، شور والے ماحول سے بچیں، اور ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ اس حالت کا بروقت انتظام کیا جا سکے۔
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔