امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کا سلسلہ اتوار، 23 مارچ 2025 کو اختتام پذیر ہوا۔ اس غیر سرکاری اور غیر پابند ریفرنڈم میں 35 ہزار سے زائد سکھوں نے حصہ لیا، جو بھارتی پنجاب کو ایک آزاد ملک “خالصتان” بنانے کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ ریفرنڈم امریکی تنظیم “سکھ فار جسٹس” (SFJ) کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا مقصد دنیا بھر میں سکھ ڈائسپورا کے درمیان خالصتان کے قیام کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے۔
لاس اینجلس میں ہونے والی اس ووٹنگ میں سکھ کمیونٹی نے بھرپور شرکت کی۔ سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے ووٹنگ کے اختتام پر کہا، “دنیا بھر کے سکھ اپنے ووٹوں کے ذریعے بھارت کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بھارت کے زیر تسلط نہیں رہنا چاہتے۔” انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریفرنڈم سکھوں کی خودمختاری کے لیے ایک پرامن اور جمہوری عمل ہے، اور وہ اسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کریں گے تاکہ پنجاب میں ایک سرکاری ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جا سکے۔
سکھ فار جسٹس نے اعلان کیا کہ اگلا خالصتان ریفرنڈم 17 اگست 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کیا جائے گا، جس سے یہ سلسلہ مزید شہروں تک پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔
خالصتان ریفرنڈم ایک غیر سرکاری اور غیر پابند ووٹنگ کا عمل ہے، جو سکھ فار جسٹس کی جانب سے 2021 سے دنیا بھر میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد بھارت کے زیر انتظام پنجاب کو ایک آزاد سکھ ریاست بنانے کے لیے عالمی سکھ کمیونٹی کی رائے حاصل کرنا ہے۔ اس مجوزہ ریاست میں بھارتی پنجاب کے علاوہ چندر گڑھ، ہماچل پردیش، ہریانہ، اور اتر پردیش، راجستھان، اور اتراکھنڈ کے کچھ اضلاع شامل ہوں گے۔
اس سے قبل، کیلیفورنیا میں ہی دو مراحل میں ووٹنگ ہو چکی ہے۔ 28 جنوری 2024 کو سان فرانسسکو میں 127,000 سکھوں نے ووٹ ڈالے تھے، جبکہ 31 مارچ 2024 کو سیکرامنٹو میں 61,000 سکھوں نے حصہ لیا تھا۔ مجموعی طور پر، کیلیفورنیا میں اب تک 200,000 سے زائد سکھ اس ریفرنڈم میں ووٹ ڈال چکے ہیں۔ دنیا بھر میں اب تک لگ بھگ 450,000 سکھ اس عمل میں حصہ لے چکے ہیں، جن میں کینیڈا، برطانیہ، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
بھارتی حکومت نے اس ریفرنڈم کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے “سیاسی طور پر محرک اور قابل اعتراض” قرار دیا ہے۔ بھارت نے سکھ فار جسٹس کو 2019 میں دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی تھی، اور اس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو بھارت کا “مطلوبہ شخص” قرار دیا گیا ہے۔ بھارتی حکام کا الزام ہے کہ یہ ریفرنڈم پاکستان کی مدد سے چلایا جا رہا ہے تاکہ بھارت کو غیر مستحکم کیا جا سکے، لیکن اس الزام کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
بھارت نے کینیڈا، امریکا، اور دیگر ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو روکیں، لیکن کینیڈا اور امریکا نے اسے آزادی رائے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کی اجازت دی ہے۔ کینیڈا کے حکام نے کہا ہے کہ یہ ایک پرامن اور جمہوری عمل ہے، جو ان کے قوانین کے دائرے میں ہے۔
خالصتان ریفرنڈم، اگرچہ ایک علامتی عمل ہے، لیکن اس نے سکھ ڈائسپورا کے درمیان اپنی شناخت اور خودمختاری کے لیے بڑھتی ہوئی بے چینی کو اجاگر کیا ہے۔ سکھوں کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ 1984 کے سکھ نسل کشی کے واقعات، جیسے کہ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کا حملہ اور اس کے بعد ہونے والے فسادات، اب بھی سکھ کمیونٹی کے اجتماعی شعور میں گہرے طور پر پیوست ہیں۔ مزید برآں، حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں، جیسے کہ 2020 کے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے دوران سکھوں کو “خالصتانی” قرار دینا، نے بھی اس جذبات کو ہوا دی ہے۔
تاہم، یہ ریفرنڈم کئی سوالات بھی اٹھاتا ہے۔ سب سے پہلے، یہ ووٹنگ صرف سکھ ڈائسپورا تک محدود ہے، جبکہ بھارت کے پنجاب میں رہنے والے لوگوں کی رائے شامل نہیں ہے۔ پنجاب کی آبادی میں سکھ اکثریت میں ہیں (تقریباً 56%)، لیکن وہاں دیگر کمیونٹیز، جیسے کہ ہندو اور مسلمان، بھی رہتے ہیں۔ ان کی رائے کے بغیر یہ ریفرنڈم مکمل طور پر نمائندہ نہیں کہلا سکتا۔ دوسرا، بھارتی حکومت کی جانب سے اسے روکنے کے لیے سخت اقدامات، جیسے کہ سکھ فار جسٹس پر پابندی اور سکھ کارکنوں کی گرفتاریاں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پنجاب میں اس طرح کا کوئی سرکاری ریفرنڈم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔
مزید برآں، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ریفرنڈم سکھ ڈائسپورا کے درمیان سیاسی طاقت اور گوردواروں پر کنٹرول حاصل کرنے کی ایک کوشش بھی ہو سکتا ہے، نہ کہ صرف خالصتان کے قیام کے لیے ایک خالص تحریک۔ اس کے علاوہ، اس عمل کی قانونی حیثیت بھی مشکوک ہے، کیونکہ بین الاقوامی قانون کے تحت خودمختاری کے لیے ریفرنڈم متعلقہ علاقے میں ہونا چاہیے، نہ کہ ڈائسپورا کے درمیان۔
لاس اینجلس میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے 35 ہزار سکھوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ سکھ کمیونٹی اپنی شناخت اور خودمختاری کے لیے پرعزم ہے۔ یہ ریفرنڈم، اگرچہ علامتی ہے، لیکن بھارت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ سکھوں کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرے۔ تاہم، اس عمل کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا یہ تحریک پنجاب کے اندر بھی اتنی ہی حمایت حاصل کر سکتی ہے، اور کیا عالمی برادری اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوگی۔