0

جنوبی افریقی سفیر ابراہیم رسول کا وطن واپسی پر پرتپاک استقبال

امریکا کی جانب سے فلسطین اور ایران کی حمایت کا الزام لگا کر ناپسندیدہ شخصیت قرار دیے جانے والے جنوبی افریقی سفیر ابراہیم رسول کو ملک سے نکال دیا گیا تھا۔ اتوار کے روز وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ کیپ ٹاؤن ایئرپورٹ پر پہنچے، جہاں عوام کی بڑی تعداد نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ استقبال کے لیے موجود افراد کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ابراہیم رسول کو ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کے لیے پولیس کی مدد لینا پڑی۔

استقبال کے موقع پر ابراہیم رسول نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “ناپسندیدہ شخصیت قرار دینا دراصل آپ لوگوں کی بے عزتی ہے، لیکن جب اس کے جواب میں عوام کی جانب سے ایسا پرتپاک استقبال ملتا ہے تو میں اس ناپسندیدہ شخصیت کے بیج کو فخر کے طور پر پہنوں گا۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ ہماری خواہش نہیں تھی کہ ہم واپس آئیں، لیکن ہم بغیر کسی افسوس کے واپس آئے ہیں۔ ہمیں امریکا مخالف پالیسیوں کی وجہ سے نہیں نکالا گیا، بلکہ اپنے مفادات کو امریکا کی جھولی میں ڈالنے سے انکار کرنے پر ملک بدر کیا گیا ہے۔”

ابراہیم رسول نے جنوبی افریقا کے لیے امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمارے ملک کو سزا دی ہے اور ہم پر امریکا مخالف پالیسیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ ہمیں ان تعلقات کو درست کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ہمارے قومی مفاد میں ہے۔”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے جنوبی افریقا کی تمام فنڈنگ بند کر دی تھی۔ اس آرڈر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ جنوبی افریقا فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور ایران کی حمایت کر رہا ہے، اور ساتھ ہی سفید فام لوگوں کے خلاف پالیسیاں مرتب کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سوشل میڈیا پر ابراہیم رسول کو ملک چھوڑنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے لکھا کہ “رسول ابراہیم ایک امریکا اور ٹرمپ مخالف سیاستدان ہیں۔”

جنوبی افریقا نے دسمبر 2023 میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں منظم نسل کشی کی درخواست دائر کی تھی، جسے بعد میں 10 سے زائد ممالک نے اپنایا تھا۔ اس اقدام کو فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑا قدم سمجھا گیا، لیکن اس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں، خاص طور پر امریکا، کی جانب سے شدید ردعمل کو جنم دیا۔

امریکا کی جانب سے ابراہیم رسول کی ملک بدری اور جنوبی افریقا پر عائد کردہ الزامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اقدام سیاسی دباؤ کا حصہ ہے، جس کا مقصد جنوبی افریقا کو فلسطین کی حمایت سے روکنا ہے۔ جنوبی افریقا کی تاریخ، خاص طور پر اس کی اپنی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد (ایپارتھائیڈ) کے تناظر میں، فلسطینیوں کے ساتھ اس کی ہمدردی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایپارتھائیڈ کے خاتمے کے بعد سے جنوبی افریقا نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔

امریکا کا یہ دعویٰ کہ جنوبی افریقا ایران اور حماس کی حمایت کر رہا ہے، بغیر ٹھوس ثبوت کے پیش کیا گیا ہے، جو اسے سیاسی طور پر ایک متنازع فیصلہ بناتا ہے۔ مزید برآں، “سفید فام لوگوں کے خلاف پالیسیوں” کا الزام بھی غیر واضح ہے، کیونکہ جنوبی افریقا کی حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں اپنائی جو اس الزام کی تصدیق کرتی ہو۔ یہ الزامات ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنی خارجہ پالیسی کو اسرائیل کے حق میں مضبوط کرنے کی کوشش کا حصہ دکھائی دیتے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کے تناظر میں، جن پر عالمی سطح پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔

دوسری جانب، ابراہیم رسول کا وطن واپسی پر پرتپاک استقبال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جنوبی افریقی عوام اپنی حکومت کی فلسطین کی حمایت کی پالیسی کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ یہ استقبال نہ صرف ابراہیم رسول کے لیے ایک عزت کا باعث ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جنوبی افریقا اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا، چاہے اسے امریکی دباؤ کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

ابراہیم رسول کی ملک بدری پر عالمی سطح پر ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ کچھ ممالک، جن میں فلسطین کی حمایت کرنے والے ممالک شامل ہیں، نے اسے امریکی خارجہ پالیسی کی “غنڈہ گردی” قرار دیا ہے، جبکہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایکس پر موجود صارفین نے بھی اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جہاں کچھ نے ابراہیم رسول کی ملک بدری کو فلسطین کی حمایت پر سزا قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے امریکی خودمختاری کا جائز فیصلہ سمجھا۔

ابراہیم رسول کی وطن واپسی اور ان کا پرتپاک استقبال اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جنوبی افریقا اپنے اصولی موقف پر قائم ہے، چاہے اسے عالمی دباؤ کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ امریکا کی جانب سے عائد کردہ الزامات اور ملک بدری کا فیصلہ سیاسی دباؤ کا حصہ دکھائی دیتا ہے، جس کا مقصد جنوبی افریقا کو فلسطین کی حمایت سے روکنا ہے۔ تاہم، یہ فیصلہ جنوبی افریقی عوام کے عزم کو کمزور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ اس نے ان کے حوصلے مزید بلند کر دیے ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرے، تاکہ فلسطین کے حوالے سے عالمی سطح پر منصفانہ پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں