مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا صحافیوں سے گفتگو پر مبنی رپورٹ
قبائلی مسائل اور حکومتی رویہ
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی گفتگو کا آغاز قبائلی مسائل اور حکومت کے رویے پر تنقید سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایجنسی ایسی نہیں رہی جہاں جرگے نہ ہوئے ہوں، مگر حکومت نے ان کی باتوں پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔ انہوں نے وزیراعظم کی بے حسی پر بھی تنقید کی کہ وہ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔
معیشت اور بے روزگاری
صحافیوں کے سوالات کے جواب میں مولانا نے کہا کہ حکومت کے دعوے کہ معیشت بہتر ہو گئی ہے اور مہنگائی کم ہو گئی ہے، حقیقت کے برعکس ہیں۔ اگر معیشت واقعی بہتر ہوتی تو ملازمین کو نوکریوں سے نہ نکالا جاتا بلکہ ان کی بھرتی کے نظام کو بہتر بنایا جاتا۔
دہشت گردی اور عوامی تحفظ
مولانا فضل الرحمٰن نے دہشت گردی اور عوامی تحفظ کے مسائل پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو اپنی زندگی کے ہر پہلو میں غیر محفوظ محسوس ہوتا ہے، چاہے وہ گھر ہو، مسجد ہو یا گلی کوچے۔
مدارس کی قانون سازی اور حکومتی سیاست
مولانا نے مدارس کی قانون سازی کے حوالے سے بھی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ صوبائی سطح پر قانون سازی نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرے گی تو احتجاج اور ہنگامے ہو سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا کردار
مولانا نے مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر جماعت کی اپنی اہمیت ہے مگر اس وقت سب سے بڑا کردار میاں نواز شریف ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کو تلقین کی کہ وہ اٹھ کر اس صورتحال کا نوٹس لیں۔
خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک
مولانا فضل الرحمٰن نے خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت سی خامیاں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات
مولانا نے افغانستان کے ساتھ تعلقات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے کے لیے راستے تلاش کرنے ہوں گے اور پل بنانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
امریکی مداخلت اور دہشت گردی
مولانا فضل الرحمٰن نے امریکہ کو دہشت گرد حوالے کرنے کے معاملے پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے امریکہ کو دہشت گرد حوالے کر کے خودمختاری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر آئی ہے جس میں خاص طور پر جے یو آئی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
جے یو آئی کو ٹارگٹ کرنے کی وجوہات
مولانا نے کہا کہ جے یو آئی کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کا عوام سے رابطہ توڑا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دوران بھی جے یو آئی کو دھمکیاں دی جاتی ہیں تاکہ وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں۔
سیاست دانوں کا کردار اور پارلیمنٹ کی خاموشی
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سیاست دانوں کو بیٹھ کر مسائل حل کرنے چاہیے اور نواز شریف کو اس وقت سب سے بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مسائل پر بات نہیں ہو رہی اور پنجاب اور سندھ نے ان دونوں صوبوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات
مولانا نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا عمل صحیح سمت میں جا رہا ہے اور تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کے بعد پارٹی کی پالیسی کونسل کے اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ریاستی اداروں کا کردار
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی ادارے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے فورم پر فیصلے کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو ایک مشترکہ فورم تشکیل دینا چاہیے۔
افغانستان کے ساتھ تلخی
مولانا نے کہا کہ اگر حکومت یا سٹیٹ کی طرف سے رابطہ ہوتا ہے تو وہ غور کریں گے کہ وہ افغانستان کے ساتھ تلخی کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں یا نہیں۔
غیر جمہوری قوتوں کا کردار
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ غیر جمہوری قوتوں کا کردار سیاست میں اور دیگر معاملات میں بڑھ چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے شعور پیدا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ملکی امن و امان اور خارجہ پالیسی پر بات ہونی چاہیے۔
مستقبل کی حکمت عملی
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ رمضان کے بعد پارٹی کی پالیسی کونسل کے اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا اور وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان تعاون
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے میں کوئی دراڑ نہیں آئی ہے اور وہ رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی بیان کی وضاحت دینی ہو تو وہ بھی ایک دوسرے ساتھی کے ذریعے کر لیتے ہیں اور اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔
خیبرپختونخوا کی صورتحال
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کوئی حکومت نہیں ہے، پولیس اور تھانہ کا نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے بعد پولیس ختم ہو جاتی ہے اور صبح سورج نکلنے تک واپس نہیں آتی۔
بلوچ علیحدگی پسند تحریک
مولانا نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک خوفناک لیول اختیار کر چکی ہے اور اس کے حل کے لیے سیاسی گفتگو اور روابط ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اور ہمیں حقائق کی بنیاد پر سٹریٹجی بنانی ہوگی۔
نظام کی تبدیلی اور جمہوری سسٹم
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ستتر سال کے تجربے کے بعد ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ آیا ہم آزاد ریاست ہیں یا نوآبادیات۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام عوام کی ترقی کا ضامن نہیں ہو سکتا اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ریاستی اور سیاسی رفقاء سے ناراضگی
مولانا نے کہا کہ ان کی ناراضگی اسٹیبلشمنٹ سے ہے جو خرابی کا ذمہ دار ہے اور سیاسی رفقاء کو بے بس اور کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں کمپرومائز ہوتا رہے گا، جمہوریت نہیں آ سکے گی۔
پروکسی جنگ
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو پروکسی لیول سے نکالنا ہوگا اور ہم نے ہمیشہ اپنے ملک میں دوسروں کی جنگ لڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خارجی قوتوں کے بیانیے سے نکل کر حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہوں گے۔
زرداری صاحب سے تعلقات
مولانا نے کہا کہ ان کے زرداری صاحب کے ساتھ تعلقات ہیں مگر زرداری صاحب اس وقت سیاست میں انجوائے کر رہے ہیں۔
حکومت اور سسٹم کا مستقبل
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وہ سسٹم کو ٹھیک کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ممبران کی مدت ملازمت
مولانا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کو مدت ملازمت ختم ہونے پر عہدہ چھوڑ دینا چاہیے اور نوکری کے لیے چمٹے رہنا ان کے شایان شان نہیں ہے۔
جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعاون
مولانا نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعاون کی بات پارٹی کی پالیسی ساز ادارہ میں ڈسکس کی جائے گی اور آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اختتامیہ
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی گفتگو کا اختتام عوامی مسائل اور حکومتی رویے پر تنقید کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو عوامی مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے۔